Posts

بعد وصال بارگاہ اقدس میں حاضری

 حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری کا یہ طریقہ صرف آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیات ِ مبارکہ میں نہ تھا ، بلکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصال ِ مبارک کے بعد بھی یہ عرض و معروض باقی رہی اور آج تک ساری امت میں چلتی آرہی ہے۔ ۔۔۔واقعہ : محدثین کی ایک بہت بڑی تعداد نے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں قحط پڑ گیا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث المُزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سلطانِ دو جہاں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قبر انور پر حاضر ہو کر عرض کی : یا رسولَ اللہ ! ( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کر دیجیے ، کیونکہ وہ ہلاک ہو رہی ہے۔ رسول کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں ان سے فرمایا : تم عمر ( فاروق ) کے پاس جا کر میرا سَلام کہو اور بشارت دے دو کہ بارش ہو گی۔   ( مصنف لابن ابی شیبہ ، 17 / 63 ، حدیث : 32665 ) چوتھا واقعہ : محدثین و مفسرین و شارحین کی درجنوں سے زیادہ تعداد نے یہ واقعہ نقل فرمایا ہے کہ حضور

:::::::::آپ کون سی خاتون پسند کرتے ہیں:::::::::::

Image
 قابل فخر مائیں اور کامل شر مائیں اندلس کے خلیفہ نے اعلان کیا کہ میں اپنے بیٹے کی شادی کسی حافظہ لڑکی سے کرنا چاہتا ہوں جس گھر میں حافظہ لڑکی ہو وہ اسی رات گھر کے باہر طاق میں چراغ جلا دے میں خود نکاح کا پیغام لیکر آؤں گا جب رات آئی تو پورا شہر گھر کے باہر طاقوں کے چراغوں کی وجہ سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا  خلیفہ حیران ہوگیا اور کہنے لگا شریعت نے حد چار کی اجازت دی ہے یہاں تو ہزاروں ہیں پھر اعلان کیا کہ جو لڑکی قرآن کریم کی حافظہ ہو اور مؤطا امام مالک کی حافظہ ہو وہ اپنے گھر کے باہر چراغ جلا دے  خیال تھا کہ بمشکل دو چار ہوں گی مگر جیسے ہی رات آئی تو آدھا شہر جگمگا رہا تھا مؤرخین نے لکھا ہے کہ اندلس میں تقریبا 170 خواتین خوشخطی کے ساتھ قرآن کریم لکھنے کی ماہرہ تھیں سلطان صلاح الدین ایوبی کی ہشمیرہ بہت بڑی عالمہ تھیں حتی کہ بعض علماء کو مخصوص کتب کی اجازت بھی عطاء کی تھی  علامہ کاسانی کی زوجہ مفتیہ تھیں جو والد صاحب کے بعد اپنے شوہر کے فتاویٰ جات کی تصحیح و تصویب کا کام کیا کرتی تھیں سیر اعلام النبلاء پڑھیں تو آپ کو بے شمار خواتین بڑے بڑے محدثین کی استاذہ و معلمہ نظر آئیں گی وہ ہمارے عروج

محراب اور اس میں نماز پڑھنے کا حکم

  بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم  محراب اور اس میں نماز پڑھنے کا حکم خلاصۂ فتوی :(الف):زمانۂ نبوی میں محراب نہ ہونے کے باوجود مصلحت عامہ ( شناخت قبلہ و تعیین وسط ) کی وجہ سے مسجدوں میں محراب بنانے کا چلن عہد صحابہ و تابعین علی الخصوص خلیفۂ راشد سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور سے بلا نکیر جاری ہے، جسے جملہ مسلمانان عالم اچھا سمجھتے ہیں، اس لیے محراب بنانا درست و جائز ہےاور یہ محراب داخل مسجد ہی کہلائےگی نیز اس کی حیثیت بھی مسجد میں شمار کی جانے والی باقی جگہوں کی طرح ہی ہوگی،جائے محراب اور مسجد کے بقیہ حصوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہوگا۔  (ب) : عام فقہا نے محراب کے اندر کھڑے ہو کر نماز ادا کرانے کو جن بنیادوں پر مکروہ بتایا ہے، آج کے دور میں وہ ساری بنیادیں ختم ہو چکی ہیں ، اس لیے محراب کے اندر کھڑے ہو کر نماز ادا کرانے میں سرے سے کوئی کراہت ہی باقی نہ رہی، ہاں اگر کہیں محراب اتنی زیادہ گہری ہوکہ امام و مقتدی کے درمیان دو چند صفوں کا فاصلہ ہوجائے تب کراہت ہے، ورنہ دوسری کسی بھی صورت میں کراہت نہیں ہے۔اور اگر امام کے ساتھ ایک صف محراب میں کھڑی ہو جائے تو یہ کراہت بھی جاتی رہے گی ، ل

سر سید احمد خان

 سرسید احمد خان کے کفریہ عقائد و نظریات پر ایک نظر اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز، کوچنگ سینٹرز نیز عوام و خواص کے ذہن میں جنگ آزادی کے اعتبار سے ایک نام نمایاں طور پر سامنے لایا جاتا ہے اور وہ ’’*سرسید احمد خان*‘‘ کا ہے مگر تصویر کا ایک رخ ہی فقط لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے اور اس کے عقائد فاسدہ جو اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں وہ لوگوں کو نہیں بتائے جاتے۔ آیئے اس کے عقائد کو جانیئے۔ ہم نے بلاتبصرہ ان کی اصل کتابوں سے نقل کردیئے ہیں۔ کتابیں مارکیٹ میں عام ہیں جس کا جی چاہے خریدے اور اصل کتاب سے مذکورہ حوالہ جات کو ملائے۔ *خدا کے بارے میں عقائد* اﷲ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ اس کا پسندیدہ دین اسلام ہے مگر سرسید اس پر راضی نہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’جو ہمارے خدا کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے، خدا نہ ہندو ہے نہ عرفی مسلمان، نہ مقلد نہ لامذہب نہ یہودی، نہ عیسائی، وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے‘‘ (مقالات سرسید ، حصہ 15 ص 147، ناشر: مجلس ترقی ادب) ’’نیچر خدا کا فعل ہے اور مذہب اس کا قول، اور سچے خدا کا قول اور فعل کبھی مخالف نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے ضرور ہے کہ مذہب اور نیچر متحد ہو (خود نوشت، ضیا

اسلحہ نبویﷺ اور ان کا تعارف

Image
 حضورنبی کریمﷺ کے اسلحہ میں کئی تلواریں بھی تھیں جو تاریخ میں اپنے ناموں سے جانی جاتی ہیں۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تلواریں۔ کتب تاریخ و سیر سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس کل 9 تلواریں تھیں۔ روایت میں ہے کہ ان نو تلواروں میں سے دو تلواریں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو وراثت میں ملی تھیں ،اس کے علاوہ تین تلواریں رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و الہ وسلم کو مال غنیمت میں سے ملی تھیں۔ اس وقت ان نو9 تلواروں میں سے آٹھ 8 تلواریں ترکی کے شہر استنبول میں ایک عجائب گھر (توپ کاپی میوزیم) میں محفوظ کیے گئے ہیں جبکہ ایک تلوار مصر میں ایک مسجد کے اندر محفوظ ہے۔ ان تلواروں کی تفصیل درج ذیل ہے۔ (١) العضب : عضب تلوار عضب رسول اللہﷺ کی ایک تلوار ہے جو آپ کو حضرت سعد بن عبادہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحفے میں دی تھی۔ اور یہی وہ تلوار ہے جو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و الہ وسلم نے غزوہ احد میں حضرت ابودجانہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمائی تاکہ میدان جنگ میں مخالفین کا سامنا کریں۔ یہ تلوار آج بھی مصر کے دار الحکومت قاہرہ کے ایک مسجد جس کا نام مسجد حسین بن علی ہے، اس می

ابلیس کی نسل کی ابتدا

 ابلیس کی نسل کی ابتدا جس جن سے ہوئی اس کا نام "طارانوس” کہا جاتا ہے۔ طارانوس ابلیس سے ایک لاکھ چوالیس ہزار سال قبل دنیا پہ موجود تھا۔ طارانوس کی نسل تیزی سے بڑھی کیونکہ ان پہ موت طاری نہیں ہوتی تھی اور نہ بیماری لگتی تھی البتہ یہ چونکہ آتشی مخلوق تھی تو سرکشی بدرجہ اتم موجود تھی۔ اس جنوں کی نسل کو پہلی موت فرشتوں کے ہاتھوں پیدائش کے 36000 سال بعد آئی جس کی وجہ سرکشی تھی یہاں پہلی بار موت کی ابتدا ہوئی اس سے پہلے موت نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں "چلپانیس” نامی ایک نیک جن کو جنات کی ہدایت کا ذمہ سونپا گیا اور وہ ہی شاہ جنات قرار پائے اس کے بعد "ہاموس” کو یہ ذمہ داری دی گئی۔ ہاموس کے دور میں ہی "چلیپا” اور "تبلیث” کی پیدائش ہوئی۔ یہ دونوں اپنے وقت کے بے حد بہادر جنات تھے اور ان کی قوم نے چلیپا کو شاشین کا لقب اس کے شیر کے جیسے سر کی وجہ سے دیا۔ ان دونوں جنات کی وجہ سے ساری قوم کہنے لگ گئی کہ ہمیں اس وقت تک کوئی نہیں ہرا سکتا جب تک شاشین اور تبلیث ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان دونوں کی وجہ سے قوم کے جنات آسمان تک رسائی کرنے لگے اور تیسرے آسمان پر جا کر شرارت کر آتے تھے۔ ای

جشن عید میلادالنبی صلی اللّہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم

Image
 (جشن عید میلاد النبی ﷺ : اہل سنت کا اصولی موقف) ١۔ اہل سنت و جماعت کے نزدیک جشن عید میلاد النبی ﷺ منانا ایک مندوب،مستحب اور مستحسن عمل ہے قرون اولی میں اصولی طور پر میلاد و فضائل کا تذکرہ ناقابل تردید دلائل سے ثابت ہے۔ جشن میلاد اہل سنت کے نزدیک نہ فرض ہے نہ واجب اور نہ ہی مروجہ طرز پر سنت، البتہ یہ مستحب و مستحسن ہے اور اسے شرعی اصطلاحی فرض و واجب قرار دینا بھی بدعت ہے اور اپنی طرف سے گھڑ کر حرام و ممنوع قرار دینا بھی بدعت ہے ٢۔ مستحب و مستحسن وہ عمل ہوتا ہے جس کو علماء و مشائخ نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہو، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ جس نے کسی اچھے کام کا آغاز کیا تو اس کو اس کا اپنا بھی اجر ملے گا اور دیگر عمل کرنے والوں کا بھی اجر ملے گا۔ اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ کسی بھی مستحسن کام کی بنیاد رکھنے پر شریعت کوئی پابندی عائد نہیں کرتی۔مستحسن کام کے لیے اہم ترین ضابطہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد شریعت میں لازمی ہونی چاہیے، ورنہ وہ مستحسن نہیں سمجھا جائے گا ٣۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا میلاد النبی یعنی عظمت و فضائل مصطفی اور واقعات پیدائش کا تذکرہ قرآن و سنت اور قرون اولی میں موجود تھا یا نہیں