جشن عید میلادالنبی صلی اللّہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم

 (جشن عید میلاد النبی ﷺ : اہل سنت کا اصولی موقف)

١۔ اہل سنت و جماعت کے نزدیک جشن عید میلاد النبی ﷺ منانا ایک مندوب،مستحب اور مستحسن عمل ہے قرون اولی میں اصولی طور پر میلاد و فضائل کا تذکرہ ناقابل تردید دلائل سے ثابت ہے۔ جشن میلاد اہل سنت کے نزدیک نہ فرض ہے نہ واجب اور نہ ہی مروجہ طرز پر سنت، البتہ یہ مستحب و مستحسن ہے اور اسے شرعی اصطلاحی فرض و واجب قرار دینا بھی بدعت ہے اور اپنی طرف سے گھڑ کر حرام و ممنوع قرار دینا بھی بدعت ہے


٢۔ مستحب و مستحسن وہ عمل ہوتا ہے جس کو علماء و مشائخ نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہو، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ جس نے کسی اچھے کام کا آغاز کیا تو اس کو اس کا اپنا بھی اجر ملے گا اور دیگر عمل کرنے والوں کا بھی اجر ملے گا۔ اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ کسی بھی مستحسن کام کی بنیاد رکھنے پر شریعت کوئی پابندی عائد نہیں کرتی۔مستحسن کام کے لیے اہم ترین ضابطہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد شریعت میں لازمی ہونی چاہیے، ورنہ وہ مستحسن نہیں سمجھا جائے گا


٣۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا میلاد النبی یعنی عظمت و فضائل مصطفی اور واقعات پیدائش کا تذکرہ قرآن و سنت اور قرون اولی میں موجود تھا یا نہیں، تو یہ بات ہر اہل علم اچھی طرح جانتا ہے کہ سو فیصد موجود تھا جیسا کہ ذیل کے چند حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے


🔴 حضور ﷺ ہر پیر کو اپنے میلاد کی خوشی میں روزہ رکھتے تھے۔ ( صحیح مسلم )

🔴 صحابہ کرام نے مسجد نبوی میں اکٹھے بیٹھ کر میلاد کا تذکرہ کیا تو حضور نے اس عمل پر انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا ہونے کا مژدہ سنایا۔

( صحیح مسلم)

🔴 ترمذی میں میلادالنبی کا باب موجود ہے نیز حضور ﷺ نےصحابہ کی محفل میں اپنا نسب و میلاد بیان کیا۔( جامع ترمذی)

🔴ابولہب کافر نے حضور ﷺ کی ولادت پر لونڈی آزاد کی، تو اس پر اسے ہر سوموار کو قبر میں پانی پلا کر کچھ راحت دی جاتی ہے۔ (بخاری)

🔴حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حضور ﷺ اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے میلاد کا تذکرہ کیا۔(طبرانی)

🔴 حضرت حسان نے منبر پر حضور کے سامنے وا جمل منک لم تلد النساء کے اشعار سنا کر آپ کا میلاد بیان کیا۔۔

🔴حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنےنعتیہ قصیدہ میں میلاد مصطفی ﷺ بیان کیا۔ تمام کتب سیرت میں حضور ﷺ کی پیدائش کے جملہ واقعات صحابہ کرام سے مروی ہیں جو وہ ایک دوسرے کو بیان کیا کرتے تھے۔


٤۔ اب اس سوال کی طرف آ جائیے کہ مروجہ طرز یعنی ربیع الاول بالخصوص بارہ تاریخ کو محفلوں، جھنڈوں، جلوسوں، نعتوں، نعروں، بینروں اور روشنیوں وغیرہ کی صورت میں میلاد منانا کس حد تک درست ہے؟

 تو اس سلسلے میں اہل سنت کا اصولی موقف یہ ہے کہ جب میلاد و فضائل کے تذکرے قرآن و سنت اور قرون اولی سے ثابت ہیں اور شرعاً مستحب کے درجے میں ہیں تو مستحبات میں ایسے امور کا اضافہ جنہیں شریعت نے ممنوع قرار نہ دیا ہو، قطعاً حرام نہیں ہے، (یہ اضافہ فرائض و واجبات میں حرام ہے) ہاں ایسے کسی ایک بھی کام کا اضافہ جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہو، بالکل ناجائز ہو گا اور اس کام سے رکنا فرض ہو گا۔ پس اہل سنت کے نزدیک ذکر میلاد کے مستحسن عمل میں تاریخ کی تخصیص، جلوس نکالنا، صدقہ کرنا، نعرے لگانا وغیرہ امور ایسے ہیں جن سے شریعت نے منع نہیں کیا، لہٰذا کسی کے ازخود انہیں حرام کہہ دینے سے یہ حرام نہ ہوں گے، ہاں شریعت میں نام بہ نام ان کی حرمت ثابت کر دی جائے تو ضرور حرام ہوں گے۔ پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ معمول کوئی آج کل شروع نہیں ہوا بلکہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور عرب و عجم ہر جگہ اس کی دھوم ہے۔ اسے لاکھوں علماء و مشائخ کی زبردست تائید حاصل ہے


٥۔ اس سلسلے میں یہ دلیل قطعاً ناکافی ہے کہ اس طرز سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے میلاد نہیں منایا تو یہ اس لیے حرام ہے ، اہل سنت کے نزدیک ایسی چیزیں قرون اولی میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے حرام نہیں ہوتیں بلکہ شرعی ممانعت سے حرام ہوتی ہیں۔اگر صرف نئی طرز کی وجہ سے میلاد کے مروج انداز کو حرام قرار دے دیا جائے تو پھر سیرت النبی کے نام پر ہونے والے وہ تمام جلسے بھی حرام ہوں گے جن میں بہرصورت نت نئی طرزیں داخل ہو چکی ہیں۔ مثلاً سیرت کے جلسوں کے اشتہارات چھاپ کر تداعی کرنا، تلاوت و نعت سے آغاز کرنا، تاریخ اور جگہ کی تخصیص کرنا وغیرہ کیونکہ اس طرز پر سیرت النبی کی محفلیں بھی قرون اولی میں نہیں دکھائی جا سکتیں۔اگر سیرت النبی ﷺ کی یہ طرز جائز ہے تو پھر میلاد کی بھی جائز ہی ہونی چاہیے، اور اگر میلاد کی یہ طرز حرام ہے تو پھر سیرت کی بھی حرام ہی ہونی چاہیے۔

 

٦۔ مستحب امور میں اضافے کی سینکڑوں مثالیں آج بھی ہمارے سامنے ہیں جن پر منکرین میلاد بھی عمل پیرا ہیں. مثلاً حضور اقدس کے زمانے میں مسجدیں تو موجود تھیں مگر مروجہ طرز کی نقش و نگار والی،میناروں، محرابوں، موٹروں، صفوں، پنکھوں اور ٹوٹیوں وغیرہ والی مسجدیں نہیں تھیں تو کیا پھر مروجہ طرز کی مسجدیں بھی ناجائز ہوں گی؟ اگر میلاد کو نیکی سمجھ کر سر انجام دینا دین میں اضافہ ہے تو مسجد میں نیکی قرار دے کر پنکھے لگوانا کیوں دین میں اضافہ نہیں ہے


٧۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اتنے چرچے اور خرچے کے ساتھ دھوم دھام سے میلاد کرنے کا مقصد کیا ہے؟ تو اہل سنت کے نزدیک ایک تو اس کا مقصد یہ ہے کہ نئی نسلوں کو رسول اللہ کی عظمت و شان سے آگاہ کیا جائے، آپ ﷺ کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کی جائے۔ دوسرا اس کا مقصد یہ ہے کہ شرعا حضور ﷺ کے نبی ہونے کا پیغام دنیا کے ہر ہر انسان تک پہنچانا بھی امت کا اہم ترین فریضہ ہے اور جشن میلاد اس کا بہترین ذریعہ ہے۔ میلاد مصطفی کا عالمی جشن رسول اللہ ﷺ کے نبی ہونے کا زبردست اعلان ہے، اس سے تمام غیر مسلموں کے کانوں تک یہ بات پہنچ جاتی ہے کہ حضور ﷺ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں جن پر ایمان لانا فرض اور دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ پس معلوم ہوا کہ میلاد تو مستحب ہے مگر اس کے جو مقاصد ہیں وہ اہم ترین بنیادی فرائض میں سے ہیں

  

نوٹ: یہ تو تھا ہمارا اصولی موقف، باقی رہ گئے مزید اعتراضات کے طومار اور ان کے جوابات، تو ان کے حوالے سے ہزاروں کتابیں موجود ہیں، اس مختصر تحریر میں ان کی گنجائش نہیں ہے





Comments

Popular posts from this blog

حضرت ﻋﻼﻣﮧ ﺧﺎﺩﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ صاحب ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺣﯿﺮﺍﻥ

:::::::::آپ کون سی خاتون پسند کرتے ہیں:::::::::::