مسئلہ حاضر و ناظر

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

✍میری یہ پوسٹ کچھ لمبی ہو گی جس کے لیے معذرت خواہ ہوں✍


یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُؕ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا(۱۳۶)سورہ نسإ


✍نبیﷺ بطور حاضر و ناظر اور عقیدہ اہل سنت معہ دلاٸل اور اس پر اعتراضات کے جوابات✍


✍ عقیدہ اہل سنت✍

امام محقق عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں،

وبا چندین اختلافات کثرت مذاہب کے در علماء است یک کس را اختلافے نیست کہ آنحضرت صلی الله تعالی عليه وآله وسلم با حقیقت بے شائبہ مجاز توہم تاویل وباقی است وبر اعمال امت حاضر ناظر است

(اقرب التوسل، ص 150)


باوجود اس کے علمائے امت میں اختلافات اور مذاہب کی کثرت اس مسئلہ میں کسی کا بھی اختلاف نہیں کہ آنحضرت صلی الله تعالی عليه وآله وسلم اپنی حقیقی زندگی میں بلا تاویل بغیر احتمال مجاز کے دائم اور باقی ہیں اور امت کے اعمال پر حاضر ناظر ہیں.


کیا ہم رسول الله کو ہر ہر جگہ موجود جانتے ہیں؟

سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ہر جگہ حاضر جاننا عقیدہ اہلسنت و جماعت کے خلاف ہے اور صحیح نہیں ہے

(فتاوی رضویہ 204/29)


ہم اہلسنت وجماعت نبی مکرم ﷺ کے جسم بشری کے ساتھ ہرجگہ موجود ہونے کا دعوی نہیں کرتے، حاضر ناظر خاص علمی اصطلاح ہے

(مسئلہ حاضرناظر، سعید احمد سعد)

فالمعنی یا عالم یا من یری

حاضرناظر کے معنی ہیں اے جاننے والے اے دیکھنے والے

( فتاوی شامی 337/3)


ہم اہلسنت نبی کریم ﷺ کو امت کے جملہ اعمال پر حاضر ناظر تکمیل قرآن کے بعد سے مانتے ہیں

(مسئلہ حاضرناظر، سعید احمد سعد، ص 7)


الله کے کسی پیغبر کے لئے جب یہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ الله تعالی نے اپنی عطا سے اپنی قدرت سے ساری کائنات اور ساری کائنات کا ظاہر و باطن اس پیغبر کے سامنے کر دیا اور دور و نزدیک کی آوازیں سننا یا تھوڑے سے وقت میں پورے عالم کی سیر کرلینا اور بیک وقت کئی مقامات پر جلوہ گر ہونا اور پوری دنیا کو ہتھیلی کی مانند ملاحظہ کرنا آسان فرما دیا

(انوار الفتاوی، 1/56)

جس نے کہا کہ دُور سے سننا صرف الله کی شان ہے اس نے رب عزوجل کی شان گھٹائی وہ پاک ہے اس سے کہ دور سے سُنے ، وہ ہر قریب سے قریب تر ہے، دور سے سننا اس کی عطا سے اس کے محبوبوں ہی کی شان ہے، اُسے حاضر و ناظر بھی نہیں کہہ سکتے، وہ شہید و بصیر ہے، حاضر و ناظر اس کی عطا سے اُس کے محبوب علیہ افضل الصلوۃ والسلام ہیں

(فتاوی رضویہ 29/333)


حاضر ناظر کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ﷺ جسم معروف اور جسد عنصری کے ساتھ ایک وقت میں ہرجگہ موجود ہیں

(تبیان القرآن، 1/613)


حاضر ناظر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ رسول الله ﷺ جسم اصلی اور معروف تشخیص کے ساتھ ہرجگہ موجود ہیں

(مسئلہ حاضر ناظر، حافظ محمد نصر الله)


حاضر وناظر کے مسئلے میں یہ عقیدہ غلط ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ذات مقدسہ متعدد جگہ ہوتی ہے اور متعدد میں سے ہر ایک آپ کا عین ہے

(القول السدید، ص 1)


ہمارا عقیدہ اس مسئلے میں وہی ہے جو ہمارے اسلاف کا ہے

(تبرید النواظر، ص11)


اذن للانبیاء ان یخرجوا من قبورھم و یتصرفوا فی ملکوت السمٰوٰت و الارض

امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:

حضرات انبیاء کرام علیھم السلام کےلئے مزارات سے باہر جانے

اور آسمانوں اور زمین میں تصرف کی اجازت ہوتی ہے۔

(الحاوی للفتاوٰی 263/2)


حاضر ناظر کے معنی ہیں کہ قوت قدسیہ والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کا مشاہدہ فرمائے اور ان کا علم رکھے

(جاء الحق، فصل حاضر وناظر)


✍دلاٸل قرآن پاک سے ✍

’فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا‘‘(نساء:۴۱)

 تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور تمہیں ان سب پر گواہ بناکر لائیں گے


النَّبِيُّ أَوۡلَىٰ بِٱلۡمُؤۡمِنِينَ مِنۡ أَنفُسِهِمۡۖ وَأَزۡوَٰجُهُۥٓ أُمَّهَٰتُهُمۡۗ وَأُوْلُواْ ٱلۡأَرۡحَامِ بَعۡضُهُمۡ أَوۡلَىٰ بِبَعۡضٖ فِي كِتَٰبِ ٱللَّهِ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ وَٱلۡمُهَٰجِرِينَ إِلَّآ أَن تَفۡعَلُوٓاْ إِلَىٰٓ أَوۡلِيَآئِكُم مَّعۡرُوفٗاۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي ٱلۡكِتَٰبِ مَسۡطُورٗا (6)احزاب

پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیاده حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں اور رشتے دار کتاب اللہ کی رو سے بہ نسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیاده حق دار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو یہ حکم کتاب (الٰہی) میں لکھا ہوا ہے.


یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا(45)وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(46)احزاب

اے نبیﷺ !بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔ اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والااو ر چمکادینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔


وَ یَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا عَلَیْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِیْدًا عَلٰى هٰۤؤُلَآءِؕ-وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ۠(۸۹)نحل

اور جس دن ہم ہر امت میں انہیں میں سے ان پر ایک گواہ اٹھائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ بناکر لائیں گے اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا جو ہر چیز کا روشن بیان ہے اور مسلمانوں کیلئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔


إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ

المزمل، 73 : 15

بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)بھیجا ہے جو تم پر گواہی دینے والا ہے۔


نوٹ✍ شاھد کا مفہوم حاضر بھی ہے عربی لغت کو جاننے والے یہ جانتے ہیں

شَاهِدُ [عام] [اسم] گواہ (2) دلیل (3) حاضر (4) مشاہد ج: شهود واشهاد وشهد وشهد ۔ ✍


✍دلاٸل احادیث مبارکہ سے✍


عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم خَرَجَ يَوْمًا فَصَلّٰی عَلٰی أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَه عَلَی الْمَيِّتِ تُمَّ انْصَرَفَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِنِّي فَرَطٌ لَکُمْ وَأَنَا شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ وَإِنِّي وَﷲِ، لَأَنْظُرُ إِلٰی حَوْضِي الْآنَ، وَإِنِّي أُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ، أَوْ مَفَاتِيْحَ الْأَرْضِ، وَإِنِّي وَﷲِ، مَا أَخَافُ عَلَيْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِي وَلٰـکِنْ أَخَافُ عَلَيْکُمْ أَنْ تَتَنَافَسُوْا فِيْهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.


حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک روز (مدینہ طیبہ سے اُحد کی طرف) تشریف لے گئے۔ تو شہداءِ اُحد (کے مزارات پر) نماز پڑھی جیسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میت پر نماز پڑھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: بے شک میں تمہارا پیش رو اور (روزِ قیامت) تم پر گواہ ہوں۔ بیشک ﷲ ربّ العزت کی قسم! میں اپنے حوض کو اِس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا: روئے زمین کی کنجیاں) عطا کر دی گئی ہیں۔ ﷲ ربّ العزت کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اِس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ہو جاؤ گے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔


عَنْ عَبْدِ ﷲِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : اِقْرَأْ عَلَيَّ. قَالَ: قُلْتُ: أَقْرَأُ عَلَيْکَ وَعَلَيْکَ أُنْزِلَ؟ قَالَ: إِنِّي أَشْتَهِي أَنْ أَسْمَعَه مِنْ غَيْرِي. قَالَ: فَقَرَأْتُ النِّسَاءَ حَتّٰی إِذَا بَلَغْتُ: {فَکَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی هٰـؤُلَاءِ شَهِيْدًا} ]النساء، 4: 41[. قَالَ لِي: کُفَّ أَوْ أَمْسِکْ فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَذْرِفَانِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں فرمایا: مجھے قرآن مجید پڑھ کر سناؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:(یا رسول اللہ !) میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں حالانکہ قرآن تو نازل ہی آپ پر ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میری یہ خواہش ہے کہ میں اپنے سوا کسی اور سے (قرآن) سنوں۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے سورہ نساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ جب میں اِس آیت مبارکہ پر پہنچا: {فَکَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی هٰـؤُلَاءِ شَهِيْدًا} ’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: رک جاؤ، پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چشمانِ اقدس کو دیکھا تو وہ آنسو بہا رہی تھیں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔


اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً تمہارے سب دنوں میں سے افضل ترین دن جمعہ کا دن ہے، اسی دن میں آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی میں انہیں فوت کیا گیا اور اسی دن میں صور پھونکا جائے گا اور اسی دن میں بیہوشی طاری ہو گی، چنانچہ تم اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو؛ کیونکہ آپ کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے) اس پر صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ پر ہمارا درود کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ آپ کی تو ہڈیاں بھی بوسیدہ ہو چکی ہوں گی! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی نے زمین پر انبیائے کرام کے جسموں کو حرام کر دیا ہے) اس حدیث کو ابو داودؒ : (1047) اور نسائیؒ: (1374) نے روایت کیا ہے جبکہ اسے البانی رحمہ اللہ نے "إرواء الغليل" (1 / 34) میں صحیح کہا ہے۔


اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (زمین پر اللہ تعالی کے سیاح فرشتے ہیں جو مجھ تک میری امت کی جانب سے سلام پہنچاتے ہیں۔) اس حدیث کو نسائی ؒ : (1282) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ: (6 / 842) میں صحیح کہا ہے۔


أخرجه ابن المبارک في الزهد، 1 /557، الرقم: 1598، وابن جرير الطبري في جامع البيان، 2 /10، والسيوطي في الدر المنثور، 1 /352.


’’حضرت حیان بن ابی جبلہ اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ پہلا شخص جسے روزِ قیامت بلایا جائے گا وہ اسرافیل ہوں گے۔ ﷲ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نے میرا عہد پہنچا دیا تو وہ کہیں گے: ہاں میرے رب میں نے وہ عہد جبرائیل کو پہنچایا۔ پھر جبرائیل کو بلایا جائے گا اور اُنہیں کہا جائے گا: کیا تمہیں اسرافیل میں میرا عہد پہنچایا؟ وہ عرض کریں گے: ہاں، پس اُنہیں چھوڑ دیا جائے گا، پھر ﷲ تعالیٰ جبرائیل سے دریافت فرمائے گا: تو نے میرے عہد کا کیا کیا؟ وہ عرض کریں گے: اے میرے ربّ! میں نے وہ عہد رسولوں کو پہنچایا تھا۔ پھر رسولوں کو بلایا جائے گا اور اُنہیں کہا جائے گا: کیا جبرائیل نے تم تک میرا عہد پہنچایا؟ تو وہ کہیں گے: ہاں، پھر جبرائیل کو چھوڑ دیا جائے گا۔ پھر رسولوں سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے میرا عہد پہنچا دیا تھا؟ وہ عرض کریں گے: ہاں ہم نے (اپنی اپنی) اُمتوں تک پہنچا دیا تھا۔ پھر اُمتوں کو بلایا جائے گا اور اُن سے کہا جائے گا: کیا (میرے) رسولوں نے تم تک میرا عہد پہنچایا تھا؟ تو اُن میں سے کچھ جھٹلانے والے ہوں گے اور کچھ تصدیق کرنے والے۔ پس انبیاء و رُسل عرض کریں گے: (مولا!) ہمارے پاس اِن کے خلاف گواہ ہیں۔ ﷲ تعالیٰ فرمائے گا: کون (ہیں)؟ وہ عرض کریں گے: اُمتِ محمدیہ۔ پھر اُمتِ محمدیہ کو بلایا جائے گا اور اُنہیں کہا جائے گا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ تمام انبیاء و رُسل نے اِن اُمتوں تک میرے احکام پہنچا دئیے تھے؟ اُمتِ محمدیہ کے افراد عرض کریں گے: ہاں، پس (سابقہ) اُمتیں عرض کریں گی: اے ربّ! ہم پر وہ شخص کیسے گواہی دے سکتا ہے جس نے ہمارا زمانہ ہی نہیں پایا؟ تو ﷲ تعالیٰ فرمائے گا: تم اِن پر کیسے گواہی دے رہے ہو حالانکہ تم نے تو ان کا زمانہ ہی نہیں پایا؟ وہ عرض کریں گے: اے ربّ! تو نے ہماری طرف رسول مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور ہماری طرف کتاب نازل فرمائی اور اُس میں تو نے سابقہ اُمم کے قصص بیان فرمائے کہ اِن رسولوں نے ﷲ تعالیٰ کے احکام اپنی اُمتوں تک پہنچا دئیے تھے اور یہی ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور (اے مسلمانو!) اِسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر اُمت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تم پر گواہ ہوں۔‘‘


✍اعتراضات اور ان کے جوابات✍


اعتراض۔ حاضر ناظر تو اللہﷻ کی صفت ہے

جواب۔ اللہﷻ جسم سے پاک ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا گیا اللہ نور سموات والارض 

اگر اللہﷻ کو علمی لحاظ سے حاضر ناظر مانتے ہو تو نبیﷺ کو کواللہﷻ کی عطإ سے حاضر ناظر ماننے سے انکار کیوں؟

کیونکہ جہاں پر قران میں رب العالمین بیان فرمایا گیا وہی پر اللہﷻ نے نبیﷺ کو رحمت للعالمین بنایا بھی ثابت ہے


عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي اللہ عنہ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم : اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِہِ، وَتَوَلَّي عَنْہُ اَصْحَابُہُ وَ اِنَّہُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ اَتَاہُ مَلَکَانِ فيُقْعِدَانِہِ، فَيَقُوْلاَنِ : مَا کُنْتَ تَقَوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ؟ لِمُحَمَّدٍ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم، فَاَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُوْلُ : اَشْھَدُ اَنَّہُ عَبْدُ اﷲِ وَرَسُوْلُہُ. فيُقَالُ لَہُ : انْظُرْ اِلَي مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ، قَدْ اَبْدَلَکَ ﷲُ بِہِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّۃِ، فَيَرَاھُمَا جَمِيْعًا. قَالَ : وَاَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَيُقَالُ لَہُ : مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ : لَا اَدْرِي! کُنْتُ اَقُوْلُ مَا يَقُوْلُ النَّاسُ! فَيُقَالُ : لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، ويُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَہ، فَيَصِيْحُ صَيْحَہً يَسْمَعُھَا مَنْ يَلِيْہِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْہِ وَھَذَا اللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ.


(البخاري في الصحيح، کتاب : الجنائز، باب : ما جاء في عذاب القبر، 1 / 462، الرقم : 1308، وفي کتاب : الجنائز، باب : الميت يسمع خفق النعال، 1 / 448، الرقم : 1673، ومسلم في الصحيح، کتاب : الجنۃ وصفہ نعيمھا وأهلها، باب : التي يصرف بھا في الدنيا اھل الجنۃ واھل النار، 4 / 2200، الرقم : 2870، وابوداود في السنن، کتاب : السنۃ، باب : في المسئلۃ في القبر وعذاب القبر، 4 / 238، الرقم : 4752، والنسائي في السنن کتاب : الجنائز، باب : المسئلۃ في القبر 4 / 97، الرقم : 2051، واحمد بن حنبل في المسند، 3 / 126، الرقم : 12293.)


’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بندے کو (مرنے کے بعد) جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی (تدفین کے بعد واپس) لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں تو اس شخص یعنی (سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ اگر وہ مومن ہو تو کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے (کامل) بندے اور اس کے (سچے) رسول ہیں۔ اس سے کہا جائے گا : (اگر تو انہیں پہچان نہ پاتا تو تیرا جو ٹھکانہ ہوتا) جہنم میں اپنے اس ٹھکانے کی طرف دیکھ کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے اس (معرفتِ مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) بدلہ میں جنت میں ٹھکانہ دے دیا ہے۔ پس وہ دونوں کو دیکھے گا اور اگر منافق یا کافر ہو تو اس سے پوچھا جائے گا تو اس شخص (یعنی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا تو نے نہ جانا اور نہ پڑھا. اسے لوہے کے گُرز سے مارا جائے گا تو وہ (شدت تکلیف) سے چیختا چلاتا ہے جسے سوائے جنات اور انسانوں کے سب قریب والے سنتے ہیں۔‘‘


عَنْ اَبِي ھُرَيْرَۃَ رضي اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم : اِذَا قُبِرَ الْمَيِتُ اَوْ قَالَ اَحَدُکُمْ، اَتَاہُ مَلَکَانِ اَسْوَدَانِ اَزْرَقَانِ، يُقَالُ لِاحَدِھِمَا : الْمُنْکَرُ، وَالآخَرُ : النَّکِيْرُ، فَيَقُوْلَانِ : مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ : مَاکَانَ يَقُوْلُ : ھُوَ عَبْدُ ﷲِ وَرَسُوْلُہُ، اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا ﷲُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ، فَيَقُوْلَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْلُ ھَذَا، ثُمَّ يُفْسَحُ لَہُ فِي قَبْرِہِ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِيْنَ، ثُمَّ يُنَوَّرُ لَہُ فِيْہِ، ثُمَّ يُقَالُ لَہُ : نَمْ، فَيَقُوْلُ : اَرْجِعُ اِلَي اَھْلِي فَاُخْبِرُھُمْ؟ فَيَقُوْلَانِ : نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعَرُوْسِ الَّذِي لَا يُوْقِظُہُ اِلَّا اَحَبُّ اَھْلِہِ اِلَيْہِ، حَتَّي يَبْعَثَہُ ﷲُ مِنْ مَضْجِعِہِ ذَلِکَ وَاِنْ کَانَ مُنَافِقًا قَالَ : سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُوْلُوْنَ فَقُلْتُ مِثْلَہُ لَا اَدْرِي فَيَقُوْلَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْلُ ذَلِکَ، فَيُقَالُ لِلْاَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْہِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْہِ فَتَخْتَلِفُ فِيْھَا اَضْلَاعُہُ فَلَا يَزَالُ فِيْھَا مُعَذَّبًا حَتَّي يَبْعَثَہُ ﷲُ مِنْ مَضْجَعِہِ ذَلِکَ. رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَۃُ وَابْنُ حِبَّانَ.


(الترمذي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : ما جاء في عذاب القبر، 3 / 383، الرقم : 1071، وابن حبان في الصحيح، 7 / 386، الرقم : 3117 )


’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب میت کو یا تم میں سے کسی ایک کو (مرنے کے بعد) قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اس کے پاس سیاہ رنگ کے نیلگوں آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں۔ ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔ وہ دونوں اس میت سے پوچھتے ہیں تو اس عظیم ہستی (رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں (دنیا میں) کیا کہتا تھا؟ وہ شخص وہی بات کہتا ہے جو دنیا میں کہا کرتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے (خاص) بندے اور (سچے) رسول ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر کو لمبائی و چوڑائی میں ستر ستر ہاتھ کشادہ کر دیا جاتا ہے اور نور سے بھر دیا جاتا ہے پھر اسے کہا جاتا ہے : (سکون و اطمینان سے) سو جا، وہ کہتا ہے میں واپس جا کر گھر والوں کو بتا آؤں۔ وہ کہتے ہیں نہیں (نئی نویلی) دلہن کی طرح سو جاؤ۔ جسے گھر والوں میں سے جو اسے محبوب ترین ہوتا ہے وہی اٹھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (روزِ محشر) اُسے اس کی خواب گاہ سے (اسی حال میں) اٹھائے گا اور اگر وہ شخص منافق ہو تو (ان سوالات کے جواب میں) کہے گا : میں نے ایسا ہی کہا جیسا میں لوگوں کو کہتے ہوئے سنا، میں نہیں جانتا (وہ صحیح تھا یا غلط)۔ پس وہ دونوں فرشتے کہیں گے کہ ہم جانتے تھے کہ تم ایسا ہی کہو گے۔ پس زمین سے کہا جائے گا کہ اس پر مِل جا بس وہ اس پر اکٹھی ہو جائے گی (یعنی اسے دبائے گی) یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں داخل ہو جائیں گی وہ مسلسل عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے اسی حالتِ (عذاب) میں اس جگہ سے اٹھائے گا۔‘‘


اعتراض۔ نبیﷺ بروز محشر کچھ لوگوں کو دیکھ کر فرماٸینگے کہ یہ میرے لوگ ہیں تو فرشتے پوچھینگے کہ کیا آپﷺ کو نہیں معلوم کہ انھوں نے آپﷺ کے بعد دین میں کیا اضافے کیے

جواب۔ پوچھنے سے مراد ہر گز یہ نہیں لیا جا سکتا کہ معلوم نہیں

 جیسے آپ لوگوں سے کوٸی آپ کے والد کا نام پوچھ لے تو اس سے یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ معلوم ہی نہیں


 حدثنا عمرو بن علي، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا عبيد الله بن الأخنس، حدثني ابن أبي مليكة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏كأني به أسود أفحج، يقلعها حجرا حجرا‏"‏‏. بخاری

ہم سے عمروبن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن اخنس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گویا میری نظروں کے سامنے وہ پتلی ٹانگوں والا سیاہ آدمی ہے جو خانہ کعبہ کے ایک ایک پتھر کو اکھاڑ پھینکے گا۔

اس حدیث مبارکہ میں تو نبیﷺ کا دیکھنا ثابت ہو رہا


اس کے علاوہ ماضی کو دیکھنا تو قرآن پاک سے ثابت ہے

الم ترکیف فعل ربک بعاد

الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل

اور انبیإ علیہ سلام کا عہد بھی موجود


✍رسولوں پر ایمان بالخصوص رسول اللہﷺ پر ایمان ایمان والے ہی لاتے بدعقیدہ و گمراہ تو ز لت میں رہتے✎




Comments

Popular posts from this blog

حضرت ﻋﻼﻣﮧ ﺧﺎﺩﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ صاحب ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺣﯿﺮﺍﻥ

:::::::::آپ کون سی خاتون پسند کرتے ہیں:::::::::::