کوا کا مسئلہ۔۔۔۔۔۔۔

 کوا کا مسئلہ

مسئلہ ۸۶: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مذہب میں کوے کی حلت ہے یا نہیں۔ آج ایک کتاب میں دیکھا گیا کہ کوے کا کھانا حلال ہے۔ اس سے قبل ہم لوگوں میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا۔ اس وجہ سے لوگوںمیں بہت زیادہ اشتعال انگیزیاں ہو رہی ہیں۔ نیز اس کی عبارت بھی نقل کی جارہی ہے۔ تکملہ البحرالرائق شرح کنزالدقائق میں ہے۔ الغراب ثلثۃ انواع نوع یا کل الجیف فحسب فانہ لا یوکل ونوع یا کل الحب فحسب فانہ یوکل و نوع یخلط بینھما و ھو ایضا یو کل عند الامام و ھو العقعق لانہ یاکل الدجاج و عن ابی یوسف انہ یکرہ اکلہ لانہ غالب اکلہ الجیف و الاول اصح۔ زیلعی شرح کنز میں ہے۔ الغراب ثلثۃ انواع نوع یا کل الجیف فحسب فانہ لا یوکل و نوع یا کل الحب فقط فانہ یوکل و نوع یخلط بینھما و ھو ایضا یو کل عند ابی حنیفۃ و ھو العقعق لانہ کالدجاج و عن ابی یوسف انہ یکرہ لان غالب ماکولہ الجیف والاول اصح۔ جامع الرموز میں ہے۔ (قولہ الذی یاکل الجیف) فیہ اشعار بانہ لوا کل کل من الثلثۃ الجیف والحب جمیعا حل و لم یکرہ و قالا یکرہ والاول اصح۔

مسئولہ محمد اللہ خاں بستوی (ر ۳ ص ۳۸۷)

الجواب: بلا شبہ مذہب امام اعظم ہمام اقدم رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کوا حرام اور خبیث ہے جسکی حرمت و خبث پر دلائل کثیرہ و براہین غفیرہ کتب دینیہ و فقہیہ میں موجود ہیں۔ قال اللہ تعالی {وَ یُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ} [الاعراف:۱۵۷] (اور حرام کردیں ان پر گندگیوں کو)۔

و قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خمس فواسق یقتلن فی الحل والحرم الحیۃ والغراب الابقع والفارۃ والکلب العقود والحداء ۃ متفق علیہ (مشکوۃ شریف) و عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما من یا کل الغراب و قد سماہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاسقا واللہ ما ھو من الطیبات۔ وفی روایۃ اخری فقیل للقاسم ایوکل الغراب قال من یا کلہ بعد قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاسقا رو اھما ابن ماجۃ۔

پانچ فاسق جانور ہیں۔ انہیں حل و حرم ہر جگہ قتل کیا جا سکتا ہے۔ سانپ، سیاہ سفید داغوں والا کوا، چوہا، کاٹنے والا کتا اور چیل۔ اس حدیث کی تخریج امام بخاری اور امام مسلم نے کی۔ عبد اللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کوا کون کھائے گا؟ اسے تو رسول اللہ ﷺ نے فاسق کا نام دیا ہے۔ بخدا یہ پاک چیزوں میں سے نہیں ہے۔ ایک دوسری روایت میںہے۔ قاسم سے کہا گیا کیا کوا کھایا جا سکتا ہے؟ کہا رسول اللہ ﷺ کے اسے فاسق فرمادینے کے بعد کون کھائے گا۔ ہدایہ میں ہے۔

والمراد بالغراب الذی یا کل الجیف و یخلط لانہ یبتدی بالا ذی اما العقعق فغیر مستثنی لانہ لا یسمی غرابا۔

کوے سے مرادوہ قسم ہے جو غلاظت کھاتا ہے۔ اس کے علاوہ غلاظت و دانہ ملاکر بھی کھاتا ہے۔ جہاں تک عقعق کا تعلق ہے یہ مستثنی نہیں ہے۔ اسلئے کہ اس کا نام غراب (کوا) نہیں ہے۔

ذخیرہ میں ہے۔

نوع یجمع بین الجیف والحب و ھو حلال عند الامام الاعظم و ھو العقعق یقال لہ عکہ لانہ کالد جاجۃ۔

کوے کی ایک قسم وہ ہے جو غلاظت بھی کھاتا ہے اور دانہ بھی کھاتا ہے۔ یہ امام اعظم کے نزدیک حلال ہے، یہ عقعق (مہوکہ) ہے اسے عکہ کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ مرغی کے مثل ہے۔

بحرالرائق میں ہے۔

و معنی الفسق فیہن خبثہن و کثرۃ الضرر فیہن۔

ان کے اندر فسق پائے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں خباثت ہے اور بہت سے نقصانات ہیں۔

قسطلانی شرح بخاری میں ہے۔

و اما تسمیۃ ھٰولاء المذکورات فواسق فقال النووی ہی تسمیۃ صحیحۃ جاریۃ علی وفاق اللغۃ فان اصل الفسق الخروج فھو خروج مخصوص والمعنی فی وصف ہذہ بالفسق لخروجہا عن غیرہا بالا یذائِ والافساد و عدم الانتفاع۔

ان پانچ مذکورہ کو فاسق نام دیا گیا ہے۔ نووی نے کہا۔ ’’انہیں بالکل درست نام دیا گیا ہے، یہی نام زبانوں پر جاری و ساری ہے۔ کیونکہ فسق کی اصل خروج ہے۔ چنانچہ یہ مخصوص قسم کا خروج ہے۔ ان پانچوں کو لفظ فسق سے متصف کرنا ان کے ضرر رسانی، فساد و بگاڑ اور عدم انتفاع کیساتھ خروج کے سبب ہے۔

اسی میں ہے۔

و ھو ینقر ظہر البعیر و ینزع عینہ و یختلس اطعمۃ الناس۔

یہ اونٹ کی پیٹھ کو کھودتا اور اس کی آنکھ کو کھینچتا ہے اور لوگوں کے کھانوں کو جھپٹ لیتا ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے۔

الفواسق و ہی التی یبتدی بالا ذی۔

فاسق جانور وہ ہیں جو تکلیف دینے میں پہل کرتے ہیں۔

حجۃ اللہ البالغہ میں ہے۔

و سمی بعضہا فاسقا فلا یجوز تناولہ۔

ان کووں کی بعض قسم کو فاسق نام دیا گیا ہے، لہٰذا ان کا کھانا جائز نہیں ہے۔

شرح مختصر کرخی میں ہے۔

والاصل فی تحریم الغراب الابقع والحذاف ما روی ہشام بن عروۃ عن ابیہ انہ سئل عن اکل الغراب فقال من اکلہ بعد ما سماہ فاسقا لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام خمس فواسق یقتلہن المحرم فی الحل والحرم۔

غراب ابقع اور حذاف کی حرمت میں اصل وہ روایت ہے جو ھشام بن عروہ نے اپنے والد سے کی کہ وہ کوا کھانے کے متعلق سوال کئے گئے۔ تو انہوں نے کہا کہ جب اسے فاسق کا نام دے دیا گیا ہے تو اسے کون کھائے گا۔ ان کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے۔ پانچ فاسق جانور ہیں۔ احرام والا انہیں حل و حرم ہر جگہ قتل کر سکتا ہے۔

تیسیر القاری شرح فارسی صحیح البخاری میں مسطور ہے۔

فاسق بودن غراب از انست کہ کاوش میکند پشت مجروح را و چشم شتر را میکَند و رباید اطعمہ از دست مردم۔

کوا کا فاسق ہونا اس معنی کی وجہ سے ہے کہ زخمی پشت کو کھودتا ہے، اونٹ کی آنکھ کو نوچتا ہے اور لوگوں کے ہاتھوں سے کھانے کو چھین لیتا ہے۔

عباراتِ مذکورہ بالا سے معلوم ہوا کہ ان جانوروں کے فواسق فرمانے کی وجہ یہی ہے کہ ان کی طبیعت میں خباثت اور اِضرار و اِفساد اِختلاس و ایذا ہے۔ ان کا کھانا حرام، ہرگز ہرگز جائز نہیں۔ اور یہ بات ہر شخص پر ظاہر ہے کہ اس دیسی کوے میں یہ جملہ صفات ِذمیمہ و قبیحہ کہ لوگوں کو ایذا پہنچانا، مکانوں، برتنوں کو خراب کرنا، ہانڈیوں کے سر پوش کو توڑ کر کھانے لیجانا، گھڑے کے پانی کو خراب کرنا، چراغ اور اس کی بتی کو لیکر اڑ جانا، موقع پاکر گھروں کے اندر گھس جانا اور چیزوں کو بگاڑنا، اطفال کے ہاتھوں سے روٹی بوٹی کا چھین لینا، چڑیوں کبوتروں کے انڈے بچے ان کے آشیانے سے لے جانا، گھوڑوں خچروں، گدھوں، بیلوں کی پیٹھ زخمی کو نوچنا ان کو بیچین کرنا اور اس قسم کے عادات مذمومہ اس میں بر طریق اتم موجود ہیں۔ لہٰذا اس کوے کو حلال سمجھنا سراسر حماقت و بطالت، جہالت و تفاہت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عقعق جسکو بزبان فارسی عکہ و زاغ و شتی اور اردو میں مہوکہ کہتے ہیں۔ امام اعظم علیہ الرحمۃ کے نزدیک حلال اور حضرت امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ سے اس کی کراہت منقول و مروی ہے۔ اور اصح قول امام اعظم علیہ الرحمۃ کا قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اس کوے کو جو عموماً در و دیواروں پر بیٹھتا ہے اسے عقعق سے کیا تعلق۔ اس کو عقعق سمجھ کر یا اس پر قیاس کر کے حلال کہنا، کھانا، کھلانا اور پھر امام اعظم علیہ الرحمۃ کی طرف اس کی حلت کو منسوب کر دینا سراسرخیانت اور ان پر افتراء و بہتان ہے۔ و ہوعنہ بریٔ جیسا کہ عبارت ہدایہ سے ظاہر ہوا۔ سائل نے مجوزین کی جتنی عبارتیں نقل کی ہیں ان میں و دیگر بعض عبارات مذکورہ میں اس امر کی تصریح ہے کہ جس غراب کو حضرت امام اعظم نے حلال قراردیا ہے وہ عقعق ہے۔ اگر ان کی مراد بالا طلاق ہے جو اس دیہی کوے کو بھی شامل ہو تو و ھوالعقعق سے اس کی تفسیر کر نے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ علاوہ ازیں مجوزین نے خلط کا معنی ہی نہ سمجھا اور اپنی رائے سے اس کوے کو فقہائے کرام کی رایوں کے خلاف داخل عقعق کیا۔ حالانکہ دونوں میں زمین و آسمان کا تفاوت ہے۔

خلط کے معنی یہ ہیں کہ وہ براہ راست نجاست نہیں کھاتا بلکہ دوسری کسی چیز سے پہلے ملا لیتا ہے پھر کھاتا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کا استفسار اور حضرت امام اعظم علیہ الرحمہ کا جواب فتاوی قاضیخاں کی عبارت سے ملاحظہ ہو۔

سألت ابا حنیفۃ عن العقعق فقال لاباس بہ فقلت فانہ یا کل النجاسۃ فقال انہ یخلط النجاسۃ بشئی آخر ثم یا کل فکان الاصل عندہ ان ما یخلط کالدجاجۃ لاباس بہ۔

میں نے ابو حنیفہ سے سوال کیا، عقعق کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا۔ ’’اس میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’یہ تو نجاست کھاتا ہے‘‘۔ فرمایا۔ ’’یہ پہلے نجاست کو کسی دوسری چیز سے ملاتا ہے، پھر کھاتا ہے‘‘۔ لہٰذا امام صاحب کے نزدیک اصل یہ ہوا کہ جو جانور بھی براہ راست نجاست نہیں کھاتا بلکہ دوسری چیز سے ملا لیتا ہے جیسے مرغی تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اگر خلط کا معنی وہ نہ لیا جائے جو اوپر مذکور ہوا تو لازم آئے گا کہ کتا بھی مثلا حلال ہو جائے کہ وہ دانے اور نجاست دونوں کھاتا ہے۔ ولم یقل بہ احد۔

الحاصل ہمارے امام ِاعظم ہمام ِاقدم رحمۃ اللہ علیہ کا جو ضابطہ دربائہ حلتِ جانور قرار پایا وہ یہ کہ جو جانور مثل مرغی کے نجاست کو دوسری شئی سے ملالے اور پھر کھائے وہ حلال ہے نہ یہ کہ گاہے نجاست کھا کر شکم پر کرے اور گاہے دانہ کھاکر۔ اور ظاہر ہے کہ اس کوے کی محبوب اور مرغوب غذا نجاست ہی ہے کہ اگر اس کے سامنے ایک طرف تھوڑی سی نجاست رکھ دی جائے اور دوسری طرف دانوں کا ڈھیر تو پہلے اس کی تمام تر توجہ نجاست کی طرف ہوگی، دانے کی طرف قطعاً نظر بھی نہ کرے گا۔ خلاصہ یہ کہ یہ کوا غراب ابقع میں داخل ہے جو بالاتفاق حرام ہے۔

قال و قد اتفق العلماء علی اخراج الغراب الصغیر الذی یا کل الحب من ذالک و یقال لہ غراب الذرع وافتوا بجواز اکلہ فبقی ماعداہ من الغربان ملحقا بالابقع (انتھی)۔

علماء نے متفقہ طور پر اس چھوٹے کوا کو دائرهءحرمت سے نکال دیا ہے، جو دانہ کھاتا ہے۔ جسے غراب الذرع (کالا، چھوٹا کوا اسے زاغ کہتے ہیں اس کی چونچ اور پائوں سرخ ہوتی ہے) کہا جاتا ہے اور اس کوے کے کھانے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ لہٰذا دوسرے کوے ابقع کے ساتھ ملحق ہو کر حرام ہو جائیں گے۔

لا یقول بحلہا بعد کشف ہذہ الدلائل الواضحۃ و البراہین القاہرہ الامن زاغ قلبہ و طارلبہ من الطریق القویم واللہ یھدی من یشاء الی الصراط المستقیم۔ ہذہ جمل اجمالیۃ فی ہذا الباب والتفصیل فی الرسالۃ المبارکۃ لسیدنا امام اہل السنۃ الفاضل البریلوی قدس سرہ العزیز۔ (ان دلائل واضحہ و براہین قاطعہ کے سامنے آجانے کے بعد کوے کے حلال ہونے کا قائل وہی ہوگا جس کے دل میں کجی ہے اور جس کا بھیجا ختم ہو گیا ہے اور جو راہ راست سے ہٹ چکا ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔ اس مسئلہ پر یہ چند اجمالی جملے ہیں اور تفصیل امام اہل سنت فاضل بریلوی کے رسالۂ مبارکہ میں دیکھئے۔ ) واللہ تعالٰی اعلم۔ 

(حبیب الفتاوی،جلد چہارم،ص٩٤)




Comments

Popular posts from this blog

حضرت ﻋﻼﻣﮧ ﺧﺎﺩﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ صاحب ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺣﯿﺮﺍﻥ

:::::::::آپ کون سی خاتون پسند کرتے ہیں:::::::::::