مصارف زکوٰۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصارفِ زکوٰۃ
زکوۃ کسے دی جائے؟
اللہ تَعَالٰی نے اپنے پاک کلام ميں آٹھ مصارفِ زکوٰۃ بيان فرمائے ہيں:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ-
ترجمہ کنزالايمان: زکوٰۃ تو انہيں لوگوں کے لئے ہے محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصيل کرکے لائيں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنيں چھوڑانے ميں اور قرضداروں کو اور اللہ کی راہ ميں اور مسافر کو ۔(التوبۃ:۹ / ۶۰)
علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغينانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ متوفی ۵۹۳ھ فرماتے ہيں،(الأصل فيہ قولہ تَعَالٰی : (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ) الآيۃ، فہذہ ثمانيۃ أصناف، وقد سقط منھا المؤلفۃ قلوبھم،لأن اللہ تَعَالٰی أعزّ الإسلام وأغنی عنھم) وعلی ذلک انعقد الإجماع (والفقير من لہ أدنی شيئ، والمسکين من لا شيء لہ) وھذا مروي عن أبي حنيفۃ رحمہ اللہ؛ وقد قيل علی العکس.[1]
يعنی، مصارفِ زکاۃ ميں اصل (دليل) اللہ تَعَالٰی کا فرمان ہے، زکوٰۃ تو انہيں لوگوں کے لئے ہے محتاج اور نرے نادار (کنزالايمان) ، تو يہ آٹھ مصارف ہيں اور ان مصارف سے اَلْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ، يعنی، جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے، ساقط ہوگيا کيونکہ اللہ تَعَالٰی نے اسلام کو عزّت بخشی اور ان لوگوں سے غنی فرماديا اور اسی پر اجماع ہے۔ فقير وہ ہے جس کے پاس ادنی چيز ہو اور مسکين وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، يہ فرمان امام اعظم ابو حنيفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، جبکہ (فقير و مسکين کی تعريف ميں) اس کے برعکس بھی فرمايا گيا۔
بنی ہاشم ساداتِ کرام کو صدقہ دينا جائز نہيں،
چنانچہ علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغينانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہيں (ولا تدفع إلی بني ھاشم) لقولہ عليہ الصلاۃ والسلام: ''يا بني ھاشم إن اللہَ تعالی حرم عليکم غسالۃ الناس وأوساخھم وعوّضکم منھا بخمس الخمس''،بخلاف التطوع؛ لأن المال ھھنا کالماء يتدنس بإسقاط الفرض. أما التطوع فبمنزلۃ التبرد بالماء.[2] اور صدقات (واجبہ) بنی ہاشم کو نہ دئي جائيں کيونکہ حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمايا:'' اے بنو ہاشم بے شک اللہ تَعَالٰی نے تم پر لوگوں کا دھوون ، ان کے اوساخ(يعنی ميل) حرام فرمائے ہيں اور تمہارے لئے اس کے بدلے غنيمت کا پانچواں حصہ مقرر فرمايا۔'' بخلاف نفلی صدقات کے، کيونکہ مال زکوٰۃ کی صورت ميں اس پانی کی مثل ہے جوفرض ساقط ہونے سے ميلا ہوتا ہے، جبکہ نفلی صدقہ کا معاملہ پانی سے ٹھنڈک حاصل کرنے کے مقام ميں ہے۔
ور بنو ہاشم کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ مرغينانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہيں
(وھم آل عليّ وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل حارث بن عبد المطلب ومواليھم) أما ھؤلاء فلأنّھم ينسبون إلی ھاشم بن عبد مناف، ونسبۃ القبيلۃ إليہ. وأما مواليھم فلما روي أن مولی لرسول اللہ صلی اللہ تَعَالٰی علیہ واٰلہ وسلم سألہ أتحل لي الصدقۃ؟ فقال: ''لا، أنت مولانا''.[3]
يعنی، بنو ہاشم اولادِ علی، اولاد عباس، اولادِ جعفر، اولاد عقيل، اولاد حارث بن عبد المطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھُمْ اَجْمَعِیْن اور ان کے آزاد کردہ غلام ہيں۔ جہاں تک تعلق بنی ہاشم کا ہے تو اس کی وجہ ان کا ہاشم بن عبد مناف کی جانب منسوب ہوناہے، اور قبیلہ کی نسبت بھی ہاشم بن عبد مناف کی جانب ہے۔ اور رہا سوال ان کے آزاد کردہ غلاموں کاتو وہ (يعنی ان کو زکوٰۃ دينا) اس لئے ممنوع ہے کہ مروی ہے کہاللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ عَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آزاد کردہ غلام نے آپ سے پوچھا، کہ کيا ميرے لئے صدقہ لينا جائز ہے؟ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمايا، نہيں تم ہمارے آزاد کردہ غلام ہو۔
حديث شريف ميں ہے:
عَنْ أَبِيْ ھُرَيرۃَ قَالَ: أَخَذَ حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ مِنْ تَمَرِ الصَّدَقَۃِ فَجَعَلَھَا فِيْ فَيہ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ''کِخْ کِخْ'' لِيطْرَحَھَا، ثُمَّ قَالَ: ''أَمَا شَعَرْتَ أَنَّا لَا نَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ''؟!.[4]
حضرت ابو ہريرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، فرماتے ہيں، حضرت حسن بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے صدقے کے چھوہاروں ميں سے ايک چھوہارا لے کر اپنے منہ ميں ڈال ليا تو نبی کريم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمايا، کخ کخ تاکہ وہ اسے تھوک ديں پھر فرمايا، کيا تمہيں خبر نہيں کہ ہم صدقہ نہيں کھايا کرتے۔
''اس حديث نے فيصلہ فرماديا کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اولاد کو زکوٰۃ لينا حرام ہے أَنَّا جمع فرما کر تاقيامت اپنی اولاد کو شامل فرما ليا، يہ ہی حق ہے اسی پرفتویٰ ہے، بعض لوگ جو کہتے ہيں کہ يہ حکم اس زمانہ ميں تھا اب سيد زکوٰۃ لے سکتے ہيں ياسيد کی زکوٰۃ سيد لے سکتے ہيں، يہ تمام مرجوع قول ہيں، فتویٰ اس پر نہيں خيال رہے کہ بنی ہاشم سے مراد آل عباس، آل جعفر، آل عقيل، آل حارث بن مطلب اور آل رسول ہيں ابو لہب کی مسلمان اولاد اگرچہ بنی ہاشم تو ہيں مگر يہ زکوٰۃ لے سکتے تھے اور لے سکتے ہيں، کيونکہ زکوٰۃ کی حرمت کرامت و عزّت کے لئے ہے، ابو لہب حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ايذاء کی کوشش ميں رہا اسی لئے وہ اور اس کی اولاد اس عظمت کی مستحق نہ ہوئی (ازلمعات) اس حديث سے معلوم ہوا کہ اپنی ناسمجھ اولاد کو بھی ناجائز کام نہ کرنے دے وہ ديکھو حضرت حسن اس وقت بہت ہی کمسن اور ناسمجھ تھے جيسا کہ کخ کخ فرمانے سے معلوم ہورہا ہے مگر حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہيں بھی زکوٰۃ کا چھوہارا نہ کھانے ديا''۔[5]
عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ''إِنَّ ھٰذِہِ الصَّدَقَاتِ إِنَّمَا ھِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّھَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ''. [6]
حضرت عبد المطلب بن ربيعہ سے مروی ہے، فرماتے ہيں،خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین، شفیع المذنبین، انیس الغریبین، سراجُ السالکین، مَحبوبِ رب العلمین، جنابِ صادق و امین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمايا، يہ صدقات لوگوں کے ميل ہی ہيں، نہ يہ محمد کو حلال ہيں اور نہ محمد کی آل کو۔
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ '' صدقات لوگوں کے میل ہیں ''کے تحت فرماتے ہیں ''اس طرح کہ زکوٰۃ فطرہ نکل جانے سے لوگوں کے مال اور دل پاک وصاف ہوتے ہيں جيسے ميل نکل جانے سے جسم يا کپڑا، رب تَعَالٰی فرماتا ہے: (خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا) ترجمہ: اے محبوب ان کے مال ميں سے زکوٰۃ تحصيل کرو جس سے تم انہيں ستھرا اور پاکيزہ کردو [التوبۃ:۹ / ۱۰۳](کنزالايمان) لہٰذا يہ مسلمانوں کا دھوون ہے''۔
''يہ حديث ايسی واضح اور صاف ہے جس ميں کوئی تاويل نہيں ہوسکتی، يعنی مجھے اور ميری اولاد کو زکوٰۃ لينا اس لئے حرام ہے کہ يہ مال کا ميل ہے لوگ ہمارے ميل سے ستھرے ہوں ہم کسی کا ميل کيوں ليں۔ اب بعض کا کہنا کہ چونکہ سادات کو خمس نہيں ملتا اس لئے اب وہ زکوٰۃ لے سکتے ہيں غلط ہے کہ نص کے مقابل چونکہ اورکيونکہ نہيں سُنا جاتا''۔[7]
ايک اور حديث ميں ہے:
عَنْ أَبِيْ ھُرَيرۃَ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِطَعَامٍ سَأَلَ عَنْہُ ''أَھَدْيۃٌ أَمْ صَدَقَۃٌ''؟ فَإِنْ قِيل: صَدَقَۃٌ؛ قَالَ لِأَصْحَابِہِ: ''کُلُوْا''، وَلَمْ ياکُلْ، وَإِنْ قِيل: ھَدْيۃٌ، ضَرَبَ۔
حضرت ابو ہريرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، فرماتے ہيں، تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت،محسنِ انسانیت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس جب کوئی کھانا لايا جاتا تو اس کے متعلق پوچھتے کہ آيا يہ ہديہ ہے يا صدقہ، اگر کہا جاتا کہ صدقہ ہے تو صحابہ سےبِيدہِ فَأَکَلَ مَعَھُمْ. [8]
فرماتے کھالو، اور خود نہ کھاتے اور اگر عرض کیا جاتا کہ ہديہ ہے تو ہاتھ شريف بڑھاتے اور اُن کے ساتھ کھاتے۔
غنی صحابہ اپنے واجب ونفلی صدقہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت ميں پيش کرتے تھے تاکہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے ہاتھ سے غربا ميں تقسيم فرماديں کہ آپ کے ہاتھ کی برکت سے رب تَعَالٰی قبول فرمائے حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اصحاب صفہ وغيرہ فقراء وصحابہ پر تقسيم فرما ديتے تھے، اور بعض لوگ خود حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے ہديہ ونذرانہ لاتے تھے، چونکہ دو قسم کے مال حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس آتے تھے، اس لئے اگر لانے والا صاف صاف نہ کہتا، تو سرکار خود پوچھ ليتے تھے۔ ہديہ سے خود بھی کھاليتے تھے مگر صدقہ خود استعمال نہ فرماتے تھے۔ يہاں صحابہ سے مراد فقراء صحابہ ہيں جو صدقہ واجبہ لے سکتے ہيں حضرت عثمان غنی وغيرہم غنی صحابہ مراد نہيں۔
سرکار عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام ہديہ و نذرانہ کا کھانا خود بھی کھاتے اور موجود صحابہ کو بھی اپنے ہمراہ کھلاتے تھے۔ خيال رہے کہ غنی اور سيد کو صدقہ نفل لينا جائز ہے وہ صدقہ ان کے لئے ہديہ بن جاتا ہے مگر حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صدقہ نفل بھی نہ ليتے تھے کيونکہ اس ميں صدقہ دينے والا لينے والے پر رحم وکرم کرتا ہے جس کا ثواب اللہ سے چاہتا ہے سب حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رحم کے خواستگار ہيں حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کون انسان رحم کرتا ہے، ہاں صدقہ جاريہ جيسے کنوئيں کا پانی، مسجد و قبرستان کی زمين اس کا حکم دوسرا ہے کہ يہ غنی وفقير بلکہ خود صدقہ کرنے والے واقف کو بھی اس کا استعمال جائز ہے، يہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے بھی مباح تھا (از مرقات وغيرہ)۔ [9]
ايک اور حديث شريف ميں ہے:
عَنْ عُبَيد اللہِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخَيارِ، قَالَ: أَخْبَرَنِيْ رَجُلَانِ أَنَّھُمَا أَتَيا النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ فِيْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ، وَھُوَ يقَسِّمُ الصَّدَقَۃَ، فَسَأَلَاہُ مِنْھَا، فَرَفَعَ فِينا النَّظْرَ، وَخَفَضَہُ فَرَآنَا جَلْدَينِ، فَقَالَ: ''إِنْ شِئْتُمَا۔ أَعْطَيتکُمَا، وَلَا حَظَّ فِيھَا لِغَنِيٍّ وَّلَا لِقَوِيٍّ مُکْتَسِبٍ''. [10]
حضرت عبيداللہ بن عدی بن خيار سے مروی ہے، فرماتے ہيں کہ مجھے دو شخصوں نے خبر دی کہ وہ دونوں سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت ميں حجۃ الوداع کے موقع پر حاضر ہوئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صدقہ تقسيم فرمارہے تھے انہوں نے بھی حضور سے صدقہ مانگا تو حضور نے ہم پر نظر اُٹھائی پھر جھکائی ہم کو تندرست و توانا ديکھا تو فرمايا کہ اگر تم چاہو تو تم کو دے دوں مگر اس ميں نہ تو غنی کا حصہ ہے نہ کمائی کے لائق تندرست کا۔
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حصہ حدیث ''صدقہ تقسیم فرما رہے تھے'' کے تحت فرماتے ہیں '' ظاہر يہ ہے کہ صدقہ فرض يعنی زکوٰۃ ہوگا اور حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ ميں حجاج نے اپنی زکوٰۃ تقسيم کے لئے پيش کی ہوگی، جيسا کہ صحابہ کا دستور تھا''۔
مزید فرماتے ہیں''اس ميں دونوں (جو سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے صدقہ طلب کرتے تھے،) کو تقویٰ و طہارت کی تعليم ہے يعنی چونکہ تم دونوں اگرچہ فقير ہو مگر تندرست اور کمانے کے لائق ہو اس لئے اس سے لينا تمہارے لائق نہيں، اگر ان کو يہ صدقہ لينا حرام ہوتا جيسا کہ حضرت امام شافعی فرماتے ہيں تو حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَيہ نہ فرماتے کہ اگر تم چاہو تو تم کو دے دوں، اس اختيار دينے سے معلوم ہورہا ہے کہ دينا جائز تو ہے مگر بہتر نہيں''۔[11](ضیائے صدقات،ص۴۳تا ۵۲)
[1] ۔۔۔ الھدايۃ،کتاب الزکاۃ، باب من يجوز دفع الصدقۃ إليہ ومن لا يجوز،الجزء۱،ج۱ ص۱۲۰
[2] ۔۔۔ الھدايۃ،کتاب الزکاۃ، باب من يجوز دفع الصدقۃ إليہ ومن لا يجوز،الجزء۱،ج۱،ص۱۲۰
[3] ۔۔۔ الھدايۃ،کتاب الزکاۃ، باب من يجوز دفع الصدقۃ إليہ ومن لا يجوز،الجزء۱،ج۱،ص۱۲۰
[4] ۔۔۔ صحيح البخاري،کتاب الزکاۃ، باب ما يذکر في الصدقۃ للنبي صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم، الحديث: ۱۴۹۱،ج۱،ص۳۶۷ صحيح مسلم، کتاب الزکاۃ،باب تحريم الزکاۃ علی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم... إلخ، الحديث: ۱۶۱۔(۱۰۶۹) ص۳۷۶،
مشکاۃ المصابيح،کتاب الزکاۃ، باب من لا تحل لہ الصدقۃ، الفصل الأول، الحديث: ۱۸۲۲،ج۱،ص۳۴۶۔۳۴۷،
[5] ۔۔۔ مرآۃ المناجيح، ج۳، ص۴۶
[6] ۔۔۔ صحيح مسلم، کتابالزکاۃ، باب ترک استعمال آل النبي صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم علی الصدقۃ، الحديث: ۱۶۸۔(۱۰۷۲)، ص۳۸۷
سنن النسائي،کتاب الزکاۃ، باب استعمال آل النبي صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم علی الصدقۃ،الحديث: ۲۶۰۸،الجزء۵،ج۳،ص۱۱۱
مشکاۃ المصابيح،کتاب الزکاۃ، باب من لا تحل لہ الصدقہ، الفصل الأول،الحديث: ۱۸۲۳،ج۱،ص۳۴۷
[7] ۔۔۔ مرآۃ المناجيح شرح مشکاۃ المصابيح، ج۳،ص۴۶
[8] ۔۔۔ صحيح البخاري،کتاب الھبۃ وفضلھا والتحريض عليھا، باب قبول الھديۃ،الحديث: ۲۵۷۶،ج۲،ص۱۴۹۔
صحيح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول النبي صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم الھديۃ وردّہ الصدقۃَ،الحديث: ۱۷۵۔(۱۰۷۷)،ص۳۸۸
سنن الترمذي،کتاب الزکاۃ، باب ما جاء في کراھيۃ الصدقۃ للنبي صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم وأھل بيتہ ومواليہ، الحديث: ۶۵۶،ج۱،ص۴۷۳
سنن النسائي،کتاب الزکاۃ،باب الصدقۃ لا تحل للنبي صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم،الحديث: ۲۶۱۲،الجزء۵،ج۳،ص۱۱۳
مشکاۃ المصابيح،کتاب الزکاۃ، باب من لا تحل لہ الصدقۃ، الفصل الأول،الحديث: ۱۸۲۴،ج۱،ص۳۴۷
[9] ۔۔۔ مرآۃ المناجيح، ج۳، ص۴۷
[10] ۔۔۔ سنن أبي داود،کتاب الزکاۃ، باب من يعطی من الصدقۃ وحدّ الغنی،الحديث: ۱۶۳۳،ج۲،ص۱۹۵
سنن النسائي،کتاب الزکاۃ،باب مسألۃ القوي المکتسب،الحديث: ۲۵۹۷،الجزء۵،ج۳،ص۱۰۵
مشکاۃ المصابيح،کتاب الزکاۃ،باب من لا تحل لہ الصدقۃ، الفصل الثاني،الحديث: ۱۸۳۲،ج۱،ص۳۴۸
[11] ۔۔۔ مرآۃ المناجيح، ج۳
Comments
Post a Comment