Posts

Showing posts from April, 2020

قیامت کے دن انسان کو کس نسبت سے پکارا جائے گا۔۔؟

Image
ارشادَ باری تعالیٰ ہے: يَوْمَ نَدْعُواْ كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُوْلَـئِكَ يَقْرَؤُونَ كِتَابَهُمْ وَلاَ يُظْلَمُونَ فَتِيلاً وہ دن (یاد کریں) جب ہم لوگوں کے ہر طبقہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے، سو جسے اس کا نوشتہ اَعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو یہ لوگ اپنا نامہ اعمال (مسرت و شادمانی سے) پڑھیں گے اور ان پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ بنی اسرائيل، 17: 71 درج بالا آیتِ قرآنی میں بتایا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے پیشواؤں اور اماموں کے تعارف سے پکارا جائے گا۔ بعض مفسرین کرام نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے امام سے مراد ’ماں‘ لیا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے منسوب کر کے پکارا جائےگا۔ مگر ان مفسرین نے اس کے دلیل پیش نہیں کی، فقط کچھ حکمتیں بیان کی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: إِنَّ الْغَادِرَ يُرْفَعُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُقَالُ هَذِهِ غَدْرَةُ فُـلَانِ بْنِ فُـلَان

پل صراط کی مسافت

Image
نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جہنَّم پر ایک پُل ہے جو بال سے زِیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے، اس پر لوہے کےکُنڈے اور کانٹے ہیں جسے اللہ پاک چاہے گا یہ اُسے پکڑیں گے۔ لوگ اُس سے گزریں گے، بعض پلک جھپکنے کی طرح، بعض بجلی کی طرح، بعض ہوا کی طرح، بعض بہترین اور اچھے گھوڑوں اور اُونٹوں کی طرح (گزریں گے) اور فِرشتے کہتے ہوں گے: ’’رَبِّ سَلِّمْ، رَبِّ سَلِّمْ‘‘ (یعنی اے پَروَردگار سلامتی سے گزار، اے پروَر دگار سلامتی سے گزار ) بعض مسلمان نجات پائیں گے، بعض زخمی ہوں گے، بعض اَوندھے ہوں گے اور بعض منہ کے بل جہنَّم میں گِر پڑیں گے۔ (مسنداحمد،ج9،ص415،حدیث:24847) حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: ان کی رفتاروں میں یہ فرق ان کے نیک اعمال اور اخلاص کی وجہ سے ہو گا جیسا عمل، جیسا اخلاص ویسی وہاں کی رفتار۔ یہاں اَشِعَّۃُ اللَّمۡعَات نے فرمایا کہ اعمال سببِ رفتار ہیں اور حضور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی نگاہِ کرم اصلی وجہ رفتار کی ہے جتنا کہ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قُرْب زیادہ اتنی رفتار تیز۔ (مراۃ المناجیح،ج

یا رسول اللّٰہ کہنے کا ثبوت

Image
 ’’یارسول اﷲ‘‘کے معنی ہیں’’اے اللہ کے رسول‘‘ان الفاظ کے ذریعے رسول خدا، محبوب کبریا باعث تخلیق کا ئنات فخر دوعلم حضور رحمت عالم ﷺکو پکارا جاتا ہے۔ انہیں پکارنا خواہ کے کسی لقب و خصوصیت کے ساتھ جائز و مستحسن ہی نہیں بلکہ کا ر ثواب اور موجب سعادت دارین ہے کوئی بے دین یا گمر اہ ہی ہوگا جو یا رسول اﷲکہنے کا منکر ہو گا۔ حرف’’یا‘‘ کے معنی ہیں ’’اے‘‘ جو پکارنے کے لئے آتا ہے اور اﷲ رب العزت نے بھی اپنے محبوب حضورﷺکو متعد د بار قرآن پاک میں اس حرف کے ذریعے پکار اہے۔ ٭ یا ایھا الرسول(سورہ مائدہ، آیت ۴۱) (آیت۶۷)  ٭ یا ایھا المزمل(پارہ۲۹ ، سورہ مزمل)  ٭ یاایھا المدثر (پارہ۲۹، سورہ مدثر) ٭ یا ایھا النبی حسبک اﷲ(سورہ انفال، آیت۶۴)  ٭ یا ایھا النبی حرض المؤمینن (سورہ انفال، آیت۵ ۶) ٭ یا ایھا النبی قل لمن فی اید یکم (سورہ انفال، آیت۷۰) ٭ یا ایھا النبی جاھد الکفار (سورہ توبہ، آیت ۷۳ وسورہ تحریم آیت ۹) ٭ یا ایھا النبی التق اﷲ(سورہ احزاب، آیت۱) ٭ یا ایھا النبی قل لا زواجک (سورہ احزاب، آیت ۲۷) ٭ یا ایھا النبی اذاجاء ک المؤمنات (سورہ ممتحنہ، آیت۱۲) ٭ ایھا النبی اذ

سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ

Image
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے، ابو عمارہ ان کی کنیت تھی اور وہ عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو چار سال بڑے تھے۔ ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے انہیں بھی دودھ پلایا تھا، اس حوالے سے یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہوئے تو تحریکِ اسلامی کے اراکین کو ایک ولولۂ تازۂ عطا ہوا۔ آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کا واقعہ بڑا ہی ایمان افروز ہے جس سے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی حق گوئی، جرات اور بے باکی کا پتہ چلتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو داعئ اعظم کی حیثیت سے فریضۂ تبلیغ سرانجام دیتے ہوئے چھ سال ہو گئے تھے لیکن کفار و مشرکینِ مکہ کی اکثریت نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوتِ حق پر کان نہیں دھرتی تھی بلکہ انہوں نے شہر مکہ کو قریۂ جبر بنا رکھا تھا اور مسلمانوں پر جو اقلیت میں تھے عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا تھا اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ صرف دشنام طرازیوں اور طعن و تشنیع کا ہدف بنایا جاتا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کے منصوبے تک بنائے جا رہے تھے۔ پور

شرجیل اسلامی نام نہیں۔۔۔۔۔

Image
#شرجیل_اسلامی_نام_نہیں کل ایک دنیا دار جاننے والوں کے گھر بیٹا ہوا تو انہوں نے مجھے علما کی جوتیاں اٹھانے والا سمجھتے ہوۓ عزت کی اور سوال کیا کہ ہم اس کا نام شرجیل رکھنا چاہ رہے تو میں نے وجہ پوچھی تو کہتے اسلامی نام ہے۔ صحابی کا نام ہے۔ احادیث کی اکثر کتب میں شرجیل سے روایات ہیں تو میں نے انہیں عرض کی شرجیل اسلامی نام نہیں اس حیثیت سے کہ قرونِ اولیٰ میں کسی کا نام شرجیل نہیں تھا۔ لیکن وہ ماننے کو تیار نہ ہوۓ کہتے اور بخاری شریف لا کے دکھاٸ تو راوی کے نام میں شرجیل نام بھی آتا تھا تو مجھے دکھا کے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگے یہ دیکھیے تو میں نے عرض کی کہ آپ ترجمہ پڑھ رہے ہیں تو عربی میں دیکھیے نام شرجیل ہی لکھا ہے یا کچھ اور تو جب انہوں نے شرجیل کی جگہ عربی متن میں شرحبیل نام دیکھا تو حیرت زدہ ہو کر رہ گے۔ ایک اور حدیث پر بھی انہوں نے نشانی لگا کر رکھی تھی جب اس کو دیکھا تو وہاں بھی اردو میں شرجیل جبکہ عربی میں شرحبیل تھا تو تب جا کے انہیں یقین آیا۔  یہ تو ہوٸ میری بات تو سوچا بہت سے لوگ مذہبی عقیدت رکھتے ہوۓ نام شرجیل رکھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ اصل نام شرحبیل ہے جو بگڑتا ب

انجینئر محمد علی مرزا عوام کی عدالت میں۔۔۔

Image
انجینئر محمد علی مرزا صاحب کہتے ہیں میں اپنا مقدمہ علماء کی عدالت میں نہیں عوام الناس کی عدالت میں پیش کرتا ہوں عاجز بھی آج اپنا مقدمہ عوام الناس کی عدالت میں پیش کرے گاااااا میرا مخاطب وہ اندھا مقلد نہیں جو مرزا کی ہر بات پر سر جھکا دے بلکہ میرا مخاطب ہر وہ شخص ہے جو اپنے سینے میں عظمت اسلام کی بحالی کا درد رکھتا ہے دین کیا ہے؟؟؟؟؟؟؟ وہ عَلم(قرآن و سنت) جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنھم کو تھمااا دیا اور انہوں نے وہ علم مشرق و مغرب میں پھیلا دیااااا صحابہ رضی اللہ عنھم کے بعد وہ جھنڈا فقہاء و محدثین نے تھاما اور نسل در نسل تم تک پہنچا دیااا ایک لحظہ کو سوچو کہ اگر محدثین نہ ہوتے تو کیا تم تک اسلام کی حقیقی تعلیمات پہنچتیں؟؟؟؟سوچو اور پھر اللہ کا شکر ادا کرووو کہ تمہارے اسلاف ایسے تھے تم نے اور میں نے کیا کیا؟؟؟؟؟؟ہم وہ علم بلند تو نہ کر سکے بلکہ اس علم کو جھکاتے چلے گئے اور آج حال یہ ہے کہ علم دین کی مسند پر وہ لوگ قابض ہو چکے ہیں جو دین کی من مانی تشریحات کرتے ہیں آیات سے اپنی مرضی کا مطلب اخذ کرتے ہیں اور احادیث کی من منی تشریح کرتے

نبی کریم ﷺ کے بے سایہ ہونے کا ثبوت

Image
نبی کریم ﷺ کے بے سایہ ہونے کا قرآنی آیات سے ثبوت۔ قدجاءکم من اللہ نور وکتاب مبین۔  یعنی۔ اے لوگو! تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور (نبی کریم ﷺ) اور روشن کتاب تشریف لائے۔  2۔ یا ایھا النبی انا ارسلناک شاھدا و مبشراً و نذیراً و داعیاً الی اللہ باذنہ و سراجا منیرا۔  یعنی۔ اے نبی! ہم نے تم کو بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری سناتا ڈراتا اللہ کی طرف اسی کے حکم پر بلاتا ہوا۔ مثل نورہ کمشکوٰۃ فیھا مصباح المصباح فی الزجاجۃ۔ اور چمکانے والا سورج اللہ کے نور (ﷺ) کی مثال ایسی ہے جیسے طاق جس میں چراغ چمنی میں ہو۔ (پارہ 18 سورہ 24 آیت نمبر 35)۔  پہلی آیت میں آپ کو نور فرمایا گیا، دوسری آیت میں روشن چراغ، تیسری آیت میں آپ ﷺ کی ذات مبارکہ کو نور اور سینہ پاک کو چراغ کی چمنی سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ نہ تو نور کا سایہ ہوتا ہے نہ سورج کا۔  احادیث؛۔  تفسیر مدارک شریف پارہ 18 سورہ نور میں زیر آیت لولا اذا سمعتموہ۔ ایک واقعہ نقل فرمایا کہ لوگوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کو تہمت لگائی، حضور انور ﷺ نے حضرات صحابہ کرام سے اس کے متعلق مشورہ کیا تو حضرت عثمان ذوا

حضرت مائی رابعہ بصری رحمت اللہ علیہا پر اعتراض کا جوابہ

Image
انجینئر محمد علی مرزا کا سیدتنا رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیھا پر اعتراض انجینئر محمد علی مرزا صاحب اپنے ایک بیان میں کہتے ہیں "مولا علی کی جانب ایک جھوٹ منسوب ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ میں اللہ کی عبادت جنت و جہنم کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ اس لئے کرتا ہوں کہ وہ عبادت کے لائق ہے  لیکن ہاں رابعہ بصری اپنے ایک ہاتھ میں پانی اور ایک ہاتھ میں آگ لے کر کہتی تھیں کہ میں اس پانی سے جہنم کی آگ بھجا دونگی اور آگ سے جنت ختم کردونگی تا کہ سب لوگ اللہ کی عبادت اس ہی کی وجہ سے کریں ہماری عوام سبحان اللہ کہتی ہے جبکہ میں کہتا ہوں لعنت اللہ علیہ مرزا صاحب نے آیات کا سہارا لے کر رابعہ بصری کا رد کیا(اور بیشک یہ جملہ خلاف شریعہ ہے)  اور ایک حدیث پڑھی جس میں صحابی ربیع رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنت میں ان کا پڑوس مانگا تھا پھر کہتا ہے اللہ ہمارا حشر ربیع کے ساتھ کرے اور تمہارا رابعہ کے ساتھ (یعنی رابعہ بقول اس کے جہنمی ہیں معاذاللہ) مزید کہتا ہے یہ لوگ بھی ناصبیوں کی طرح ہیں جو یزید کو جنتی کہتے ہیں لیکن جب کہا جائے کہ اللہ تمہارا حشر یزید کے ساتھ کرے تو ف

علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ کے ایک شعر پر اعتراض کا جواب۔۔

Image
انجینئر محمد علی مرزا صاحب نے اپنے ایک بیان میں علامہ اقبال رحمہ اللہ کے اس شعر پر اعتراض کیا: "بےخطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی" موصوف کہتے ہیں یہ شعر ٹیکنیکلی غلط ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام خود نہ کودے تھے بلکہ انہیں پھینکا گیا تھا مزید کہتے ہیں اس میں عقل کی توہین ہے انہوں نے اپنی عقل استعمال کی تھی اور رب ذوالجلال پر جان قربان کرنے کو تیار ہو گئے جاہلانہ اعتراض کا علمی جواب سب سے پہلے تو یہ باتیں ایسے شخص کو زیب ہی نہیں دیتیں جس کا دور دور تک شاعری سے کوئ واسطہ نہ ہو جو حقیقی اور مجازی مطلب میں فرق بھی نہ جانتا ہووو مثال کے طور پر جو مسلمان اللہ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں ان کے متعلق یہ کہنا کہ: "یہ لوگ شہید ہیں" ٹیکنیکلی غلط ہو جائے گا کیونکہ انہیں تو دشمنوں نے قتل کیا ہے  نیز ایک دیہاتی شخص کسی مسافر کو کہتا ہے: "فلاں جگہ نہر بہ رہی ہے" یہ جملہ بھی ٹیکنیکلی غلط ہے کیونکہ نہر کہاں بہ رہی ہے؟؟؟؟ بلکہ پانی بہ رہا ہے اے شاعر جہلم!!!! یہ مجازی مطلب ہیں حقیقی نہیں اور اقبال نے جو کہ

توبہ کی شرائط / ارکان

Image
:شرح فقہ اکبر میں ہے :''مشائخ عظام نے فرمايا کہ تو بہ کے تين ارکان ہيں ۔ (۱)ماضی پرندامت۔(۲)حال ميں اس گناہ کو چھوڑ دينا۔(۳)اور مستقبل ميں اس کی طرف نہ لوٹنے کا پختہ ارادہ ۔يہ شرائط اس وقت ہوں گی کہ جب يہ توبہ ايسے گناہوں سے ہو کہ جو توبہ کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کے درميان ہوں جيسے شراب پينا۔     اور اگر اللہ تعالی کے حقوق کی ادائیگی ميں کمی پر توبہ کی ہے جيسے نماز،روزے اور زکوۃ تو ان کی توبہ يہ ہے کہ اولاًان ميں کمی پر نادم وشرمندہ ہو پھر اس بات کا پکا ارادہ کرے کہ آئندہ انہيں فوت نہ کریگا اگرچہ نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنے کے ساتھ ہوپھر تمام فوت شدہ کو قضا کرے۔     اور اگر توبہ ان گناہوں پر تھی کہ جن کا تعلق بندوں سے ہے ،پس اگر وہ توبہمظالم اموال سے تھی تو يہ توبہ ان چيزوں کے ساتھ ساتھ کہ جن کو ہم حقوق اللہ ميں پہلے بيان کر چکے ہيں،مال کی ذمہ داری سے نکلنے اور مظلوم کو راضی کرنے پر موقوف ہو گی ،اس صورت کے ساتھ کہ يا تو ان سے اس مال کو حلال کرو الے (يعنی معاف کروا لے)يا انہيں لوٹا دے ،يا (اگر وہ نہ ہوں تو )انہیں (دے کہ)جو ان کے قائم مقام ہوں جيسے وکيل يا وارث وغيرہ ۔

قضاء، قدر اور تقدیر

Image
تقدیر، قضا و قدر اور مقدر یہ تینوں الفاظ عام طور پر ایک ہی معنی میں بولے جاتے ہیں۔ قضاء کا لغوی معنیٰ ہے فیصلہ کرنا، ادا کرنا اور انجام دینا۔ راغب اصفهانی، المفردات، 406، 407 اس سے مراد وہ اصول اور قوانین فطرت ہیں جن کے تحت یہ کارخانہ قدرت معرض وجود میں لایا گیا۔ قوانینِ فطرت میں سے ایک اصول یہ ہے کہ اگر کوئی شحص نیکی کرے گا تو اسکے نتائج بھی نیک ہوں گے اور برائی کے ثمرات بھی برے ہی ہوں گے۔ قدر اور تقدیر کا لغوی معنیٰ اندازہ کرنا، طے کرنا اور مقرر کرنا ہے۔ راغب اصفهانی، المفردات، 395 اس سے مراد کائنات اور بنی نوع انسان کے احوال کا وہ علم ہے جواللہ تعالیٰ کے پاس لوح محفوظ میں لکھا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍO يٰسين، 36، 12 ’’ہر چیز کو ہم نے کتاب روشن یعنی لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔‘‘ گویا تقدیر علم الٰہی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا ہے؟ وہی بہتر جانتا ہے، ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس بات پر یقین رکھیں کہ جو کچھ ہوا، ہو رہا ہے اور ہوگا، سب اللہ کے علم میں ہے۔ اسی کے طے کردہ وقت اور مقام

قضاء، قدر اور تقدیر سے متعلق آیات اور احادیث

Image
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَايَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ط وَيَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلاَّ فِيْ کِتٰبٍ مُّبِيْنٍo (الأنعام، 6/ 59) اور غیب کی کُنجیاں (یعنی وہ راستے جن سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اسی کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں انہیں اس کے سوا (اَز خود) کوئی نہیں جانتا، اور وہ ہر اس چیز کو (بلاواسطہ) جانتا ہے جو خشکی میں اور دریاؤں میں ہے، اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر (یہ کہ) وہ اسے جانتا ہے اور نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی (ایسا) دانہ ہے اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)۔ يَمْحُوا اﷲُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ ج وَعِنْدَهُٓ اُمُّ الْکِتٰبِo (الرعد، 13/ 39) اﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے۔ تَبٰـرَکَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِهِ لِيَکُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًاo نِالَّذِيْ