نبی کریم ﷺ کے بے سایہ ہونے کا ثبوت
نبی کریم ﷺ کے بے سایہ ہونے کا قرآنی آیات سے ثبوت۔
قدجاءکم من اللہ نور وکتاب مبین۔
یعنی۔ اے لوگو! تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور (نبی کریم ﷺ) اور روشن کتاب تشریف لائے۔
2۔ یا ایھا النبی انا ارسلناک شاھدا و مبشراً و نذیراً و داعیاً الی اللہ باذنہ و سراجا منیرا۔
یعنی۔ اے نبی! ہم نے تم کو بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری سناتا ڈراتا اللہ کی طرف اسی کے حکم پر بلاتا ہوا۔ مثل نورہ کمشکوٰۃ فیھا مصباح المصباح فی الزجاجۃ۔ اور چمکانے والا سورج اللہ کے نور (ﷺ) کی مثال ایسی ہے جیسے طاق جس میں چراغ چمنی میں ہو۔ (پارہ 18 سورہ 24 آیت نمبر 35)۔
پہلی آیت میں آپ کو نور فرمایا گیا، دوسری آیت میں روشن چراغ، تیسری آیت میں آپ ﷺ کی ذات مبارکہ کو نور اور سینہ پاک کو چراغ کی چمنی سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ نہ تو نور کا سایہ ہوتا ہے نہ سورج کا۔
احادیث؛۔
تفسیر مدارک شریف پارہ 18 سورہ نور میں زیر آیت لولا اذا سمعتموہ۔ ایک واقعہ نقل فرمایا کہ لوگوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کو تہمت لگائی، حضور انور ﷺ نے حضرات صحابہ کرام سے اس کے متعلق مشورہ کیا تو حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے بارگاہ عالیہ میں یوں عرض کیا۔
وقال عثمان ان اللہ ما وقع ظلک علی الارض لئلا یقع انسان قدمہ علی ذالک الظل فلما لم یکن احداً من وضع القدم علی ظلک کیف یمکن احدا من تلویث عرض زوجتک۔
مطلب:۔ سیدی عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ رب نے آپ کا سایہ زمین پر نہ ڈالا تاکہ کوئی شخص اس سایہ پر قدم نہ رکھ سکے تو جب رب تعالیٰ نے کسی کو آپ کے سایہ پر قدم رکھنے کا موقع نہیں دیا تو کسی کو یہ قدرت کیسے دیگا کہ آپ کی زوجہ مقدسہ کی عصمت پر داغ لگائے۔ (بحوالہ تفسیر مدارک، ج 3 ص 145 دارالکتب العربی بیروت۔
حضرت خلیفۃ المسلمین امیر المؤمنین غیض المنافقین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ (میری جان و مال والدین آپ پر قربان) یوں عرض فرماتے ہیں؛۔
ان عمر رضی اللہ عنہ قال رسول اللہ ﷺ انا قاطع بکذب المنافقین لان اللہ عصمک من وقوع الذباب علی جلدک لانہ یقع علی النجاسات فیتلطخ بھا فلما عصمک من فالک القدر من القدر فکیف لا یعصمک من صحبۃ من تکو متلطخۃ یمشی ھذہ الفاحشۃ۔
مطلب: امیر المؤمنین نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، کہ ہم کو منافقوں کے جھوٹے ہونے کا یقین ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے جسم اطہر کو مکھی سے بھی محفوظ رکھا ہے، کیونکہ مکھی گندگیوں پر پڑتی ہے جس میں وہ لتھڑ جاتی ہے، جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس قدر گندگی سے بچایا ہے، تو اس بیوی کی صحبت سے کیوں نہ بچائے گا جو ایسی برائی میں لتھڑے۔
یہ ان کے "بشری" یعنی جسم مبارک کی شان ہے کہ اس پر مکھی تک بیٹھنا بھی رب العزت کو منظور نہیں، چہ جائیکہ سایہ۔
سیدنا عبداللہ بن مبارک اور حافظ علامہ ابن جوزی حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں۔ ترجمہ؛۔ یعنی فرمایا کہ نبی ﷺ کا سایہ نہ تھا اور نہ کھڑے ہوتے آپ آفتاب کے سامنے مگر آپ کا نور آفتاب کے نور پر غالب آجاتا۔اور نہ کھڑے ہوتے آپ چراغ کے سامنے مگر آپ کا نور چراغ کے نور کو دبا لیتا۔ (بحوالہ ۔ الوفاء باحوال المصطفیٰﷺ الباب التاسع والعشرون فی ذکر حسنہ ﷺ ج 2 ص 47 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت۔
بیہقی شریف میں حضرت عبداللہ ابن معیقب سے روایت کی۔
قال حججت حجۃ الوداع قد خلت دارا بمکۃ فرایت فیھا رسول اللہ ﷺ وجھہ کدائرۃ القمر۔
مطلب: فرمایا کہ میں حجۃ الوداع میں شریک ہوا تو میں مکہ معظمہ میں ایک گھر میں گیا۔ میں نے اس میں رسول کریم ﷺ کو دیکھا، آپ کا چہرہ انور چاند کی ٹکی کی طرح چمک رہا تھا۔
خاتمۃ المحدثین امام ابوبکر جلال الدین سیوطی ؒ اپنی کتاب خصائص کبریٰ شریف میں حدیث ذکوان کا ذکر فرماتے ہیں اور باقاعدہ باب باندھتے ہیں، اور امام کا باب باندھنا ان کے مذہب کے مترادف ہے۔ اور پھر اس میں لکھتے ہیں؛ (ترجمہ)۔ ابن سمیع نے فرمایا کہ حضور ﷺ کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا۔ اور آپ جب دھوپ یا چاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نہ دیکھا جاتا تھا۔ (ج1، ص 116)۔
یہی امام اپنی دوسری کتاب مستطاب الفوذج اللبیب فی خصائص الحبیب باب دوم فصل4 میں فرماتے ہیں۔
لم یقع ظلہ علی الارض ولا دء ی لہ ظل فی الشمس ولا قمر
یعنی۔ آپ ﷺ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اور آپ کا سایہ دھوپ میں دیکھا گیا نہ چاندنی میں۔
امام قاضی عیاض مالکی ؒ اپنی مشہور تصنیف شفا شریف میں فرماتے ہیں۔ وما ذکر من انہ لا ظل لشخصہ فی شخص ولا قمر لانہ کان نوراً۔ یعنی۔ یہ جو ذکر کیا گیا کہ نبی کریم ﷺ کے جسم اطہر کا سایہ نہیں، دھوپ میں نہ چاندنی میں یہ اسلیئے ہے کہ حضور نور ہیں۔ (بحوالہ شفا شریف، فصل فی الآیات التی ظہرت عنہ مولدہ ﷺ، ج 1 ص 462۔ طباعت بیروت
امام شہاب الدین خفاجی ؒ اس کی شرح نسیم الریاض میں فرماتے ہیں۔
ترجمہ:۔ نبی کریم ﷺ کی نبوت کی دلیلوں میں سے وہ ہے جو ذکر کیا گیا ہے، کہ حضور ﷺ کے جسم لطیف کا سایہ نہ تھا۔ جب کہ آپ دھوپ یا چاندنی میں ہوتے کیونکہ حضور ﷺ نور ہیں۔ اور انوار شفاف و لطیف ہیں۔ کسی کیلئے آڑ نیں بنتے۔ انوار کا سایہ نہیں ہوتا۔ (نسیم الریاض ج 3 ص 286 دارالمعرفہ بیروت۔
آفتاب ولایت حضرت مولانا جلال الدین رومی قدس سرہ العزیز مثنوی شریف میں فرماتے ہیں؛۔ ترجمہ؛۔ جو فقیر حضور کی ذات میں فنا ہو وہ محمد ﷺ کی طرح بے سایہ ہوتا ہے۔ (مثنوی شریف؛ دفتر پنجم ص 77)۔
امام عبدالرزاق ابن جریج سے روایت ہے کہ ان کے بقول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا سایہ نہیں تھا۔ (حوالہ: الجزء المفقود من المصنف عبدالرزاق ص 56
یاد رہے یہ روایت سند صحیح ہے۔ اس روایت کے چار راوی ہیں (1) امام عبدالرزاق (جو کہ امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں)۔ (2) امام ابن جریج، (3) امام نافع، (4) حضرت جابر رضی اللہ عنہ
اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کہتے ہو کہ ضعیف روایات ہیں؟۔
حضرت مولانا عبدالعلی بحرالعلوم شرح مثنوی میں ایک شعر کی شرح میں فرماتے ہیں۔
ترجمہ: دوسرے مصرع میں حضور ﷺ کے معجزہ کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کا سایہ نہ تھا۔ (قمر التمام مجموعہ رسائل و مسئلہ نور و سایہ ص 175 ضیا القران پبلیکیشنز کراچی۔
امام احمد بن محمد خطیب قسطلانی مواہب لدنیہ شریف میں فرماتے ہیں۔
لم یکن لہ ﷺ ظل فی الشمس ولا فی القمر رواہ الترمذی عن ذکوان۔
ترجمہ: وہی باتیں جو اوپر لکھی ہیں کیا بار بار لکھوں!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (مواہب لدنیہ ج 1 ص 280 مطبوعہ مصر)۔
علامہ حسین ابن محمد دیاربکری اپنی کتاب الخمیس فی احوال النفس النفیس میں فرماتے ہیں۔
حضور کا سایہ زمین پر نہ پڑا اور آپ کا سایہ نہ دیکھا گیا نہ دھوپ میں نہ چاندنی میں (ترجمہ)۔ (تاریخ الخمیس ج 1 ص 248 مطبوعہ مطبع عثمان عبدالرزاق مصر)۔
یہی چیز کتاب نورالابصار فی مناقب آل النبی الاطہار میں بھی درج ہے۔
-------------------------------
اور تم کہتے ہو کہ ضعیف روایات ہیں؟
ہم تمہاری مانیں یا سلف الصالحین کی؟
تم خود ضعیف ہو بلکہ تم لوگوں کے دماغوں میں خناس بھرا ہوا ہے جو معجزہ نبوی ﷺ اور دلیل نبوت سے انکار کرکے بھی خود کو تم لوگ کس منہ سے مسلمان کہتے ہو؟
اور کوئی خدمت میں پیش کروں، ان حضرات کے جو اس سے انکار کرتے ہیں، اگر ابھی بھی زنگ شدہ دلوں کے قفل نہیں کھلتے تو آپ یقین کریں آپ کا ایمان آپ کو کوئی فائدہ نہٰں دینے والا بلکہ درحقیقت دلیل نبوت سے انکار، انکار نبوت کے زمرے میں آتا ہے۔ اور انکار نبوت اسلام سے اخراج کا باعث ہے، اے خوارجیو
Comments
Post a Comment