قیامت کے دن انسان کو کس نسبت سے پکارا جائے گا۔۔؟


ارشادَ باری تعالیٰ ہے:

يَوْمَ نَدْعُواْ كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُوْلَـئِكَ يَقْرَؤُونَ كِتَابَهُمْ وَلاَ يُظْلَمُونَ فَتِيلاً

وہ دن (یاد کریں) جب ہم لوگوں کے ہر طبقہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے، سو جسے اس کا نوشتہ اَعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو یہ لوگ اپنا نامہ اعمال (مسرت و شادمانی سے) پڑھیں گے اور ان پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

بنی اسرائيل، 17: 71

درج بالا آیتِ قرآنی میں بتایا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے پیشواؤں اور اماموں کے تعارف سے پکارا جائے گا۔ بعض مفسرین کرام نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے امام سے مراد ’ماں‘ لیا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے منسوب کر کے پکارا جائےگا۔ مگر ان مفسرین نے اس کے دلیل پیش نہیں کی، فقط کچھ حکمتیں بیان کی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

إِنَّ الْغَادِرَ يُرْفَعُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُقَالُ هَذِهِ غَدْرَةُ فُـلَانِ بْنِ فُـلَانٍ

’’عہد شکن کے لیے قیامت کے روز ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔‘‘

بخاري، الصحيح، 5: 2285، رقم: 5823، دار ابن کثير اليمامة بيروت
مسلم، الصحيح، 3: 1959، رقم: 1735، دار احياء التراث العربي بيروت
احمد بن حنبل، المسند، 2: 16، رقم: 4648، موسسة قرطبة مصر
ابي داود، السنن، 3: 82، رقم: 2756، دار الفکر
مذکورہ بالا محدثین کے علاوہ اس حدیث مبارکہ کو عبداﷲ بن مبارک اور عبد بن حمید نے اپنی مسانید میں، امام نسائی نے سنن الکبریٰ میں، ابن ابی شیبہ نے مصنف میں، امام بیہقی نے سنن الکبریٰ میں اور دیگر کئی ایک محدثین و مفسرین نے اپنی اپنی تصانیف میں نقل کیا ہے۔ اس حدیث صحیح میں رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے والدین کے نام سے پکارا جائے گا۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ اَبِي زَکَرِيَّا عَنْ اَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ إِنَّکُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِاَسْمَائِکُمْ وَاَسْمَاءِ ابَائِکُمْ فَاَحْسِنُوا اَسْمَاءَ کُمْ

’’حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزِ قیامت تم اپنے ناموں اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤگے، لہٰذا اپنے نام اچھے رکھا کرو۔‘‘

احمد بن حنبل، المسند، 5: 194، رقم: 21739
ابي داؤد، السنن، 4: 287، رقم: 4948
دارمي، السنن، 2: 38۰، رقم: 2694، دار الکتاب العربي بيروت
ابن حبان، الصحيح، 13: 135، رقم: 5818، موسسة الرسالة بيروت
گو کہ اس حدیث کی سند میں ضعف پایا جاتا ہے، مگر مفسرین کی آراء پر اس کو ترجیح حاصل ہے۔

درج بالا تمام آیات و روایات سے ثابت ہوا کہ روزِ قیامت لوگوں کو ان کے آباء اور پیشواؤں کے تعارف سے پکارا جائے گا نہ کہ ان کی ماؤں کے ناموں سے ۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Comments

Popular posts from this blog

حضرت ﻋﻼﻣﮧ ﺧﺎﺩﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ صاحب ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺣﯿﺮﺍﻥ

:::::::::آپ کون سی خاتون پسند کرتے ہیں:::::::::::