قضاء، قدر اور تقدیر سے متعلق آیات اور احادیث

وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَايَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ط وَيَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلاَّ فِيْ کِتٰبٍ مُّبِيْنٍo
(الأنعام، 6/ 59)

اور غیب کی کُنجیاں (یعنی وہ راستے جن سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اسی کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں انہیں اس کے سوا (اَز خود) کوئی نہیں جانتا، اور وہ ہر اس چیز کو (بلاواسطہ) جانتا ہے جو خشکی میں اور دریاؤں میں ہے، اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر (یہ کہ) وہ اسے جانتا ہے اور نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی (ایسا) دانہ ہے اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)۔

يَمْحُوا اﷲُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ ج وَعِنْدَهُٓ اُمُّ الْکِتٰبِo
(الرعد، 13/ 39)

اﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے۔

تَبٰـرَکَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِهِ لِيَکُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًاo نِالَّذِيْ لَهُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَکُنْ لَّهُ شَرِيْکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَيْئٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيْرًاo
(الفرقان، 25/ 1-2)

(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈر سنانے والا ہو جائے۔ وہ (اللہ) کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کے لیے ہے اور جس نے نہ (اپنے لیے) کوئی اولاد بنائی ہے اور نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور اسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے پھر اس (کی بقا و ارتقاء کے ہر مرحلہ پر اس کے خواص، افعال اور مدت، الغرض ہر چیز) کو ایک مقررہ اندازے پر ٹھہرایا ہے۔

اِنَّ اﷲَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِج وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ج وَيَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ ط وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَاتَکْسِبُ غَدًا ط وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌم بِيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ط اِنَّ اﷲَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌo
(الروم، 30/ 34)

بے شک اﷲ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، اور وہی بارش اتارتا ہے، اور جو کچھ رحموں میں ہے وہ جانتا ہے اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا (عمل) کمائے گا اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کِس سرزمین پر مرے گا بے شک اﷲ خوب جاننے والا ہے، خبر رکھنے والا ہے، (یعنی علیم بالذّات ہے اور خبیر للغیر ہے، اَز خود ہر شے کا علم رکھتا ہے اور جسے پسند فرمائے باخبر بھی کر دیتا ہے)۔

اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْ ط وَکُلَّ شَيْئٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍo
(يٰس، 36/ 12)

بے شک ہم ہی تو مُردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم وہ سب کچھ لکھ رہے ہیں جو (اعمال) وہ آگے بھیج چکے ہیں، اور اُن کے اثرات (جو پیچھے رہ گئے ہیں) اور ہر چیز کو ہم نے روشن کتاب (لوحِ محفوظ) میں احاطہ کر رکھا ہے۔

فَقَضٰهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰی فِيْ کُلِّ سَمَآءٍ اَمْرَهَا ط وَزَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًا ط ذٰلِکَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِo
(فصلت، 41/ 12)

پھر دو دِنوں (یعنی دو مرحلوں) میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر سماوی کائنات میں اس کا نظام ودیعت کر دیا اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں (یعنی ستاروں اور سیّاروں) سے آراستہ کر دیا اور محفوظ بھی (تاکہ ایک کا نظام دوسرے میں مداخلت نہ کر سکے)، یہ زبر دست غلبہ (و قوت) والے، بڑے علم والے (رب) کا مقرر کردہ نظام ہے۔

اِنَّا کُلَّ شَيْئٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍo وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ کَلَمْحٍم بِالْبَصَرِo
(القمر، 54/ 49-50)

بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقرّرہ اندازے کے مطابق بنایا ہے۔ اور ہمارا حکم تو فق ط یکبارگی واقع ہو جاتا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا ہے۔

الْحَدِيْث
عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِي بَقِيْعِ الْغَرْقَدِ فَأَتَانَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَعَدَ وَقَعَدْنَا حَوْلَهُ، وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ فَنَکَّسَ فَجَعَلَ يَنْکُتُ بِمِخْصَرَتِهِ ثُمَّ قَالَ: مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوْسَةٍ إِلَّا کُتِبَ مَکَانُهَا مِنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَإِلَّا قَدْ کُتِبَ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيْدَةً فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَفَـلَا نَتَّکِلُ عَلٰی کِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ، فَمَنْ کَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَسَيَصِيْرُ إِلٰی عَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا مَنْ کَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ فَسَيَصِيْرُ إِلٰی عَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ؟ قَالَ: أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُوْنَ لِعَمَلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاوَةِ فَيُيَسَّرُوْنَ لِعَمَلِ الشَّقَاوَةِ، ثُمَّ قَرَأَ: {فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰیo وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰٰیo} (اللدل، 92/ 5-6).
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب موعظة المحدث عند القبر وقعود أصحابه حوله، 1/ 458، الرقم/ 1296، وأيضًا في کتاب تفسیر القرآن، باب وقوله: وکذب بالحسنی، 4/ 1891، الرقم/ 4665، ومسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کیفیة خلق آدمي في بطن أمه وکتابة رزقه وأجله، 4/ 2039، الرقم/ 2647.

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم بقیع غرقد (جنت البقیع) میں ایک جنازے کے ساتھ تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد بیٹھ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک چھڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرجھکا لیا اور چھڑی سے زمین کریدنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی زندہ شخص ایسا نہیں کہ اُس کا ٹھکانہ جنت یا جہنم میں لکھ نہ دیا گیا ہو اور یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ وہ شقی ہے یا سعید۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیوں نہ ہم اپنے لکھے ہوئے (یعنی مقدر) پر بھروسہ کرلیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں، اس طرح جو ہم میں سے سعادت مند ہوگا وہ سعادت مندوں جیسے کام کرے گا اور جو ہم میں سے بدبخت ہوگا وہ بدبختوں جیسے کام کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سعادت مندوں کے لیے سعادت کے کام آسان کر دیے جاتے ہیں اور بدبختوں کے لیے بدبختی والے اَعمال آسان کر دیے جاتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیات پڑھیں: {فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰیo وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰٰیo} ’پس جس نے (اپنا مال اﷲ کی راہ میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی۔ اور اُس نے (اِنفاق و تقویٰ کے ذریعے) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کی تصدیق کی۔‘۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اﷲِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيْفِ، وَفِي کُلٍّ خَيْرٌ. اِحْرِصْ عَلٰی مَا يَنْفَعُکَ وَاسْتَعِنْ بِاﷲِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَکَ شَيئٌ فَـلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ کَانَ کَذَا وَکَذَا. وَلٰـکِنْ قُلْ: قَدَرُ اﷲِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ فَإِنَّ ’لَوْ‘ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب في الأمر بالقوة وترک العجز والاستعانة باﷲ، 4/ 2052، الرقم/ 2664، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب في القدر، 1/ 31، الرقم/ 79، وأيضًا في کتاب الزھد، باب التوکل واليقين، 2/ 1395، الرقم/ 4168، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 159، الرقم/ 10458، وابن حبان في الصحيح، 13/ 28، الرقم/ 5721، وأبو يعلی في المسند، 11/ 124، الرقم/ 6251، وابن أبي عاصم في السنة، 1/ 157، الرقم/ 356.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک طاقتور مومن، کمزور مومن سے بہتر اور زیادہ پسندیدہ ہے اور تمام میں خیر ہے۔ جو چیز تم کو نفع دے اُس کے حصول میں حرص (پوری کوشش) کرو، اللہ کی مدد چاہو اور تھک کر نہ بیٹھے رہو، اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسا کر لیتا تو یوں ہو جاتا۔ البتہ یہ کہو یہ اللہ کی تقدیر ہے، اُس نے جو چاہا کر دیا، یہ ’اگر‘ کا لفظ (مومن کے عقیدہ اور عمل میں) شیطان کی مداخلت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

اِسے امام مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: خَدِمْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَشْرَ سِنِيْنَ فَمَا أَرْسَلَنِي فِي حَاجَةٍ قَطُّ فَلَمْ تَتَهَيَّأْ إِلَّا قَالَ: لَوْ قَضَی اﷲُ کَانَ وَلَوْ قَدَّرَ کَانَ.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 1/ 216، الرقم/ 194.

ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب بھی مجھے کسی ضروری کام سے بھیجا اور وہ نہیں ہو سکا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا تو کام ہو جاتا، اگر اﷲ تعالیٰ مقدر کرتا تو ضرور ہو جاتا۔

اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه قَالَ: جَاءَ مُشْرِکُوْا قُرَيْشٍ يُخَاصِمُوْنَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الْقَدَرِ فَنَزَلَتْ: {يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰی وُجُوْهِهِمْ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَo اِنَّا کُلَّ شَيْئٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍo} (القمر، 54/ 48-49).
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کل شيء بقدر، 4/ 2046، الرقم/ 2656، وابن حبان في الصحيح، 14/ 6، الرقم/ 6139، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 204، الرقم/ 183.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) مشرکین قریش آکر تقدیر کے متعلق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بحث کرنے لگے، اُس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰی وُجُوْهِهِمْ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَo اِنَّا کُلَّ شَيْئٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍo} ’جس دن وہ لوگ اپنے مُنہ کے بل دوزخ میں گھسیٹے جائیںگے (تو اُن سے کہا جائے گا: ) آگ میں جلنے کا مزہ چکھو۔ بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقرّرہ اندازے کے مطابق بنایا ہے۔‘۔

اِسے امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه ، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ اﷲَ وَکَّلَ بِالرَّحِمِ مَلَکًا يَقُوْلُ: يَا رَبِّ، نُطْفَةٌ، يَا رَبِّ، عَلَقَةٌ، يَا رَبِّ، مُضْغَةٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ خَلْقَهُ قَالَ: أَذَکَرٌ أَمْ أُنْثٰی، شَقِيٌّ أَمْ سَعِيْدٌ، فَمَا الرِّزْقُ وَالْأَجَلُ؟ فَيُکْتَبُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالطَّيَالِسِيُّ.

32: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الحيض، باب قول اﷲ: مخلقة وغير مخلقة (الحج، 22/ 5)، 1/ 121، الرقم/ 312، وأيضًا في کتاب الأنبياء، باب خلق آدم وذريته، 3/ 1213، الرقم/ 3155، والطيالسي في المسند، 1/ 276، الرقم/ 2073، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 179، الرقم/ 670.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے (ماں کے) رحم پر ایک فرشتہ مقرر کردیا ہے جو (رحم میں بچے کے تخلیقی مراحل میں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں) عرض کرتا ہے: اے رب! اب یہ نطفہ ہے؛ اے رب! اب یہ معلق وجود ہے؛ اے رب! اب یہ گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اُس کی تخلیق مکمل کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ (فرشتہ) عرض کرتا ہے: (اے رب!) کیا یہ بیٹا ہوگا یا بیٹی، بدبخت ہوگا یا سعادت مند؟ اِس کا رزق کتنا ہے اور عمر کتنی ہے؟ یہ سب کچھ (اﷲ تعالیٰ کے حکم سے) شکم مادر میں ہی لکھ دیا جاتا ہے۔

اِسے امام بخاری اور طیالسی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اﷲِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه يَقُوْلُ: الشَّقِيُّ مَنْ شَقِيَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَالسَّعِيْدُ مَنْ وُعِظَ بِغَيْرِهِ … والحدیث فیہ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ:… ثُمَّ يَقُوْلُ: يَا رَبِّ، أَجَلُهُ؟ فَيَقُوْلُ رَبُّکَ مَا شَاءَ وَيَکْتُبُ الْمَلَکُ ثُمَّ يَقُوْلُ: يَا رَبِّ، رِزْقُهُ؟ فَيَقْضِي رَبُّکَ مَا شَاءَ، وَيَکْتُبُ الْمَلَکُ، ثُمَّ يَخْرُجُ الْمَلَکُ بِالصَّحِيْفَةِ فِي يَدِهِ فَـلَا يَزِيْدُ عَلٰی مَا أُمِرَ وَلَا يَنْقُصُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کيفية خلق آدمي في بطن أمه وکتابة رزقه وأجله وعمله وشقاوته وسعادته، 4/ 2037، الرقم/ 2645، وابن حبان في الصحيح، 14/ 52-53، الرقم/ 6177، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 178، الرقم/ 3044، والبيهقي في السنن الکبری، 7/ 422، الرقم/ 15201، وذکره ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 49، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 10.

ایک روایت میں حضرت عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: شقی وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں ہی شقی ہوگیا، اور سعادت مند وہ ہے جو دوسرے کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرلے.... اس کے بعد طویل حدیث میں ہے: میں نے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا ہے:... پھر فرشتہ عرض کرتا ہے: اے رب! اِس کی مدتِ حیات کتنی ہے؟ پھر تمہارا رب جو چاہتا ہے وہ حکم فرما دیتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے، پھر فرشتہ (اُس کے اعمال کی) دستاویز اپنے ہاتھ میں لے کر نکل جاتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اَحکامات میں نہ کوئی زیادتی ہوتی ہے اور نہ کوئی کمی۔

اِسے امام مسلم، ابن حبان اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيْدٍ الْغِفَارِيِّ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِأُذُنَيَّ هَاتَيْنِ يَقُوْلُ: إِنَّ النُّطْفَةَ تَقَعُ فِي الرَّحِمِ … ثُمَّ يَتَصَوَّرُ عَلَيْهَا الْمَلَکُ قَالَ زُهَيْرٌ: حَسِبْتُهُ قَالَ: الَّذِي يَخْلُقُهَا، فَيَقُوْلُ: يَا رَبِّ، أَذَکَرٌ أَوْ أُنْثٰی فَيَجْعَلُهُ اﷲُ ذَکَرًا أَوْ أُنْثٰی ثُمَّ يَقُوْلُ: يَا رَبِّ، أَسَوِيٌّ أَوْ غَيْرُ سَوِيٍّ فَيَجْعَلُهُ اﷲُ سَوِيًّا أَوْ غَيْرَ سَوِيٍّ ثُمَّ يَقُوْلُ: يَا رَبِّ، مَا رِزْقُهُ مَا أَجَلُهُ مَا خُلُقُهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ اﷲُ شَقِيًّا أَوْ سَعِيْدًا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کيفية خلق آدمي في بطن أمه وکتابة رزقه وأجله وعمله وشقاوته وسعادته، 4/ 2038، الرقم/ 2645، وابن عبد البر في التمهيد، 18/ 102، وابن القيم في الحاشية، 12/ 312.

ایک روایت میں حضرت حذیفہ بن اسید الغفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے اپنے اِن دونوں کانوں سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: رحم مادر میں جب نطفہ ٹھہر جاتا ہے، پھر فرشتہ اُس کی صورت گری کرتا ہے۔ (راویِ حدیث) زہیر نے کہا: میرا گمان ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ فرشتہ جو اُس کی تخلیق کرتا ہے، پھر وہ عرض کرتا ہے: اے رب! (اسے) مذکر بناؤں یا مؤنث؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ (کے حکم سے فرشتہ) اُسے مذکر یا مؤنث بنا دیتا ہے۔ پھر وہ (فرشتہ) عرض کرتا ہے: اے رب! اس کو کامل الاعضاء بناؤں یا ناقص الاعضاء؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ (کے حکم سے) اسے کامل الاعضاء یا ناقص الاعضاء بنا دیتا ہے۔ پھر وہ فرشتہ عرض کرتا ہے: اے رب! اس کا رزق کتنا ہے؟ اس کی مدتِ حیات کتنی ہے؟ اس کے اخلاق کیسے ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ (کے حکم سے) اسے شقی یا سعید بنا دیتا ہے۔

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: يَدْخُلُ الْمَلَکُ عَلَی النُّطْفَةِ بَعْدَ مَا تَسْتَقِرُّ فِي الرَّحِمِ … فَيَقُوْلُ: يَا رَبِّ، أَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيْدٌ، فَيُکْتَبَانِ فَيَقُوْلُ: أَي رَبِّ، أَذَکَرٌ أَوْ أُنْثٰی فَيُکْتَبَانِ وَيُکْتَبُ عَمَلُهُ وَأَثَرُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ ثُمَّ تُطْوَی الصُّحُفُ فَـلَا يُزَادُ فِيْهَا وَلَا يُنْقَصُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کیفیة خلق آدمي في بطن أمه وکتابة رزقه وأجله وعمله وشقاوته وسعادته، 4/ 2037، الرقم/ 2644، وذکره ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 53، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 1/ 23، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3/ 208، والسیوطي في الدر المنثور، 6/ 10.

ایک اور روایت میں حضرت حذیفہ بن اَسِید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب نطفہ رحم میں ٹھہر جاتا ہے … تو فرشتہ (رحم میں) داخل ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے: اے رب! یہ شقی ہے یا سعید ہے؟ پھر یہ دونوں اُمور لکھ دیے جاتے ہیں۔ پھر فرشتہ عرض کرتا ہے: (اے رب!) یہ مذکر ہے یا مؤنث؟ پھر یہ دونوں اُمور لکھ دیے جاتے ہیں۔ پھر اُس کے اَعمال، نقوش، مدتِ حیات اور اُس کا رزق لکھ دیا جاتا ہے۔ پھر دستاویزات لپیٹ دی جاتی ہیں اور اُن میں نہ کوئی اَضافہ کیا جاتا ہے نہ کمی۔

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِيْلَ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخْتَمُ لَهُ عَمَلُهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِيْلَ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ ثُمَّ يُخْتَمُ لَهُ عَمَلُهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کيفية خلق آدمي في بطن أمه وکتابة رزقه وأجله وعمله وشقاوته وسعادته، 4/ 2042، الرقم/ 2651، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 11/ 356، وذکره المناوي في فيض القدير، 2/ 331.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص مدتِ طویل تک اہلِ جنت کے عمل کرتا رہتا ہے، پھر اُس کا اہلِ دوزخ کے اعمال پر خاتمہ ہوتا ہے اور ایک شخص زمانہ دراز تک اہلِ دوزخ کے عمل کرتا رہتا ہے اور بالآخر اُس کا خاتمہ اہلِ جنت کے اعمال پر ہوجاتا ہے۔

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ سَهْلٍ رضی الله عنه ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ فِيْمَا يَرَی النَّاسُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّهُ لَيَعْمَلُ فِيْمَا يَرَی النَّاسُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيْمِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ الْجَعْدِ وَاللَّالَکَائِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 6/ 147، الرقم/ 5798، وابن الجعد في المسند، 1/ 429، الرقم/ 2929، واللالکائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة، 4/ 608، الرقم/ 1086، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 55/ 416، وذکرہ ابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2/ 210.

ایک روایت میں حضرت سہل (بن سعد) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی ایسے اعمال کرتا ہے جو لوگوں کی نظر میں جنتیوں والے اَعمال ہوتے ہیں حالانکہ اَنجامِ کار وہ ہوتا جہنمیوں میں سے ہے؛ اور کوئی شخص بظاہر ایسے اعمال کرتا ہے جو لوگوں کی نظر میں اہلِ دوزخ کے اعمال ہوتے ہیں، لیکن (آخر کار) وہ ہوتا اہلِ جنت میں سے ہے۔ آگاہ ہوجاؤ! اَعمال کا دار و مدار خاتمے (یعنی اَنجام) پر ہے۔

اِسے امام طبرانی، ابن جعد اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی اللہ عنہما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: کَتَبَ اﷲُ مَقَادِيْرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِيْنَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَی الْمَاءِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب حجاج آدم وموسٰی، 4/ 2044، الرقم/ 2653، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 2/ 252، وذکره العسقلاني في فتح الباري، 6/ 289، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 55، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2/ 438، والسيوطي في الدر المنثور، 4/ 403.

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیروں کو لکھ دیا تھا (یعنی طے کردیا تھا)۔ فرمایا: (اُس وقت) اُس کا عرش پانی پر تھا۔

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ رِضَاهُ بِمَا قَضَی اﷲُ لَهُ وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ تَرْکُهُ اسْتِخَارَةَ اﷲِ وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ سَخَطُهُ بِمَا قَضَی اﷲُ لَهُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 168، الرقم/ 1444، والترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء في الرضا بالقضاء، 4/ 455، الرقم/ 2151، والشاشي في المسند، 1/ 224، الرقم/ 185.

ایک روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہنا انسان کی سعادت مندی ہے اور اللہ تعالیٰ سے (اپنے حق میں) خیر کی طلب اور دعا نہ کرنا انسان کی بدبختی ہے۔ نیز اپنے حق میں اﷲ تعالیٰ کے فیصلہ پر ناراض ہونا بھی بدبختی ہے۔

اِسے امام احمد نے اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ سے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ قَالَ: أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ رضی الله عنه فَقُلْتُ لَهُ: وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيئٌ مِنَ الْقَدَرِ فَحَدِّثْنِي بِشَيْئٍ لَعَلَّ اﷲَ أَنْ يُذْهِبَهُ مِنْ قَلْبِي. قَالَ: لَوْ أَنَّ اﷲَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ وَلَوْ رَحِمَهُمْ کَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيْلِ اﷲِ مَا قَبِلَهُ اﷲُ مِنْکَ حَتّٰی تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُخْطِئَکَ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُصِيْبَکَ، وَلَوْ مُتَّ عَلٰی غَيْرِ هٰذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ.

قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَ اﷲِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه فَقَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ فَقَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مِثْلَ ذٰلِکَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَه.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 182، الرقم/ 21629، وأبوداود في السنن، کتاب السنة، باب في القدر، 4/ 225، الرقم/ 4699، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب في القدر، 1/ 29، الرقم/ 77، وابن حبان في الصحيح، 2/ 506، الرقم/ 287، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 109، الرقم/ 247، واللالکائي في اعتقاد أھل السنة، 4/ 612، الرقم/ 1093، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 204، الرقم/ 20663، وأيضًا في شعب الإيمان، 1/ 203، الرقم/ 182.

ایک روایت میں ابن الدیلمی بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میرے دل میں تقدیر کے متعلق کچھ شبہ سا واقع ہوگیا ہے، آپ اس بارے میں مجھے کچھ ارشاد فرمائیں، شاید اﷲ تعالیٰ یہ (وسوسہ) میرے دل سے دور فرما دے۔ آپ نے فرمایا: اگر اﷲ تعالیٰ تمام اَہلِ آسمان اور اَہلِ زمین کو عذاب دے دے تو اُس کے باوجود وہ اُن کے لیے ظالم نہیں اور اگر وہ اُن پر رحم فرمائے تو اُس کی رحمت اُن کے لیے اُن کے اعمال (کی جزا) سے بہتر ہوگی۔ اگر تم اُحد پہاڑ کے برابر اﷲ کی راہ میں سونا خرچ کرو تو اﷲ تعالیٰ اُسے قبول نہیں فرمائے گا، جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لاؤاور یہ نہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں ملا وہ رکنے والا نہ تھا اور جو نہیں ملا وہ ملنے والا نہ تھا (یعنی تقدیر پر ایمان لائے بغیر ایمان مکمل نہیں اور ایمان کے بغیر صدقات و خیرات قبول نہیں ہوتے)۔ اگر اس کے سوا کسی اور عقیدے پر تمہیں موت آ جائے گی تو تم جہنم میں داخل ہو جاؤ گے۔

راوی (ابن الدیلمی) کا بیان ہے: پھر میں حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا (تو میرے سوال کرنے پر) اُنہوں نے بھی اِسی طرح بیان فرمایا۔ پھر میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُنہوں نے بھی یہی فرمایا۔ پھر میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُنہوں نے بھی مجھے اِسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان کی۔

اِسے امام احمد نے، ابو داود نے مذکورہ الفاظ میں اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتّٰی يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ حَتّٰی يَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَهُ لَمْ يَکُنْ لِيُخْطِئَهُ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَهُ لَمْ يَکُنْ لِيُصِيْبَهُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَاللَّالَکَائِيُّ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء في الإيمان بالقدر خيره وشرّه، 4/ 451، الرقم/ 2144، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 678، الرقم/ 1242، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 223، الرقم/ 214.

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تک بندہ تقدیر کے خیر و شر پر ایمان نہ لائے، مومن نہیں ہوسکتا، اور جب تک وہ یہ نہ جان لے کہ جو مصیبت اُس پر آئی ہے وہ (تقدیر میں لکھی تھی اور) ٹلنے والی نہ تھی، اور جو مصیبت اُس سے ٹل گئی ہے وہ اُسے پہنچنے والی نہیں تھی۔

اِسے امام ترمذی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

عَنْ ثَوْبَانَ رضی الله عنه ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يَزِيْدُ فِي الْعُمُرِ إِلَّا الْبِرُّ وَلَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ يُصِيْبُهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 280، الرقم/ 22466، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب العقوبات، 2/ 1334، الرقم/ 4022، وابن حبان في الصحيح، 3/ 153، الرقم/ 872، والحاکم في المستدرک، 1/ 670، الرقم/ 1814، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 109، الرقم/ 29867، والطبراني في المعجم الکبير، 2/ 100، الرقم/ 1442، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2/ 316، الرقم/ 2530.

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمر میں اِضافہ صرف نیکی اور حسنِ سلوک سے ہوتا ہے، تقدیر کو صرف دعا ہی ٹال سکتی ہے اور آدمی گناہ کے ارتکاب کی بنا پر، اپنے ملنے والے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

اِسے امام احمد، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ میں، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ سَلْمَانَ رضی الله عنه ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ وَلَا يَزِيْدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء لا يرد القدر إلا الدعاء، 4/ 448، الرقم/ 2139، والطبراني في المعجم الکبير، 6/ 251، الرقم/ 6128، والبزار في المسند، 6/ 502، الرقم/ 2540، والقضاعي في مسند الشهاب، 2/ 35، الرقم/ 833، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2/ 316، الرقم/ 2532.

ایک روایت میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تقدیر کو دعا ہی بدل سکتی ہے اور عمر نیکی اور حسنِ سلوک سے ہی بڑھتی ہے۔

اِسے امام ترمذی، طبرانی اور بزار نے روایت کیا ہے۔

عَنْ نَافِعٍ رضی الله عنه ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رضی الله عنهما جَائَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّ فُـلَانًا يَقْرَأُ عَلَيْکَ السَّلَامَ فَقَالَ لَهُ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ فَإِنْ کَانَ قَدْ أَحْدَثَ فَـلَا تُقْرِئْهُ مِنِّيَ السَّلَامَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: يَکُوْنُ فِي ہٰذِهِ الْأُمَّةِ أَوْ فِي أُمَّتِي الشَّکُّ مِنْهُ خَسْفٌ أَوْ مَسْخٌ أَوْ قَذْفٌ فِي أَهْلِ الْقَدَرِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء في الرضاء بالقضاء، 4/ 456، الرقم/ 2152، وابن القيم في الحاشية، 12/ 298.

حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت (عبد اﷲ) بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا: فلاں شخص آپ کو سلام کہتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ اُس نے دین (کے بنیادی اُمور) میں کوئی نئی بات پیدا کی ہے (جس کی دین میں کوئی اصل نہیں)۔ اگر ایسا ہی ہے تو اُسے میری طرف سے (جواباً) سلام نہ کہنا، کیونکہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اِس اُمت میں - یا فرمایا: میری اُمت میں (راوی کو شک ہے) - زمین میں دھنسنا یا چہروں کا مسخ ہونا یا پتھر برسنا تقدیر کے منکرین کے لیے ہے۔

اِسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

عَنْ أَبِي حَفْصَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ رضی الله عنه لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ، إِنَّکَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِيْقَةِ الإِيْمَانِ حَتّٰی تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُخْطِئَکَ وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُصِيْبَکَ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اﷲُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَهُ: اکْتُبْ، قَالَ: رَبِّ، وَمَاذَا أَکْتُبُ؟ قَالَ: اکْتُبْ مَقَادِیرَ کُلِّ شَيئٍ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَةُ، يَا بُنَيَّ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ مَاتَ عَلٰی غَيْرِ هٰذَا فَلَيْسَ مِنِّي.
رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في القدر، 4/ 225، الرقم/ 4700، والطبراني في مسند الشاميين، 1/ 58، الرقم/ 59، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 204، الرقم/ 20664، وأيضًا في الاعتقاد/ 136، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8/ 274، الرقم/ 336.

حضرت ابو حفصہ سے روایت ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا: اے میرے بیٹے! تم حقیقی ایمان کی حلاوت کبھی نہ پا سکو گے جب تک یہ یقین نہ رکھو کہ جو کچھ تجھے ملا ہے وہ تم سے رکنے والا نہ تھا اور جو تجھے نہیں ملا وہ تجھے ملنے والا نہ تھا، کیونکہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا: لکھ۔ قلم نے عرض کیا: اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ فرمایا: قیامت تک جو چیزیں ہوں گی، سب کی تقدیریں لکھ دو۔ اے میرے بیٹے! میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو (تقدیر کے معاملے میں) اِس کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مرا تو اُس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔

اِسے امام ابو داود، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ عَنْ عَطَاءٍ … قَالَ: فَلَقِيْتُ الْوَلِيْدَ بْنَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ صَاحِبَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَسَأَلْتُهُ: مَا کَانَ وَصِيَّةُ أَبِيْکَ عِنْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: دَعَانِي أَبِي فَقَالَ لِي: يَا بُنَيَّ، اتَّقِ اﷲَ، وَاعْلَمْ، أَنَّکَ لَنْ تَتَّقِيَ اﷲَ حَتّٰی تُؤْمِنَ بِاﷲِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ کُلِّهِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ. فَإِنْ مُتَّ عَلٰی غَيْرِ ہٰذَا دَخَلْتَ النَّارَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّيَالِسِيُّ وَابْنُ الْجَعْدِ وَاللَّالَکَائِيُّ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء في الرضا بالقضاء، باب (7)، 4/ 457، الرقم/ 2155، والطيالسي في المسند/ 79، الرقم/ 577، وابن الجعد في المسند، 1/ 494، الرقم/ 3444، واللالکائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة، 2/ 218، الرقم/ 357.

حضرت عطاء ایک طویل روایت میں بیان فرماتے ہیں: … میں صحابیِ رسول حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے بیٹے ولید سے ملا اور اُن سے پوچھا کہ آپ کے والد نے وقتِ وصال کیا وصیت فرمائی تھی؟ اُنہوں نے فرمایا: (میرے والد نے) مجھے بلا کر فرمایا تھا: اے بیٹے! اللہ تعالیٰ سے ڈر اور یہ بات جان لے کہ تو اُس وقت تک حقیقی تقویٰ حاصل نہیں کرسکتا جب تک اﷲ تعالیٰ پر اور ہر خیر و شر کے مقدر ہونے پر ایمان نہ لے آئے۔ اگر تم اس کے برعکس (یعنی ایمان بالقدر کے بغیر) وفات پاگئے تو جہنم میں داخل ہوگے۔

اِسے امام ترمذی، طیالسی، ابن جعد اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ وَفِيْهِ: وَلَنْ تُؤْمِنَ بِاﷲِ حَتّٰی تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُخْطِئَکَ، وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُصِيْبَکَ. سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: الْقَدَرُ عَلٰی ہٰذَا، مَنْ مَاتَ عَلٰی غَيْرِ هٰذَا أَدْخَلَهُ اﷲُ النَّارَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْمَقْدِسِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 250، الرقم/ 6318، وأيضا في مسند الشاميين، 2/ 414، الرقم/ 1608، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8/ 351-352، الرقم/ 429-430، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 198.

ایک اور روایت میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اور تمہارا ہرگز اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک ہر خیر و شر کے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) مقدر ہونے پر ایمان نہ لے آؤ۔ اور یہ بات جان لو کہ جو چیزتجھے مل گئی ہے وہ تمہارے علاوہ کہیں اور نہیں جا سکتی تھی اور جو چیز تمہیں نہیں ملی وہ تمہیں ملنے والی نہیں تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تقدیر پر ایسا ایمان رکھنا ضروری ہے جو اس کے خلاف (کسی دوسرے عقیدے) پر مرگیا تو جہنم میں داخل ہوگا۔

اسے امام طبرانی اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔

عَنْ عِمْرَانَ رضی الله عنه قَالَ: قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَعُلِمَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قِيْلَ: فِيْمَا يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ؟ قَالَ: کُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اﷲ تعالی: لقد يسرنا القرآن للذکر فهل من مدکر، 6/ 2745، الرقم/ 7112، ومسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کيفية الخلق الآدمي في بطن أمہ وکتابة رزقه وأجله وعمله وشقاوته وسعادته، 4/ 2041، الرقم/ 2649، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في القدر، 4/ 228، الرقم/ 4709، والنسائي في السنن الکبریٰ، 6/ 517، الرقم/ 11680، والطبراني في المعجم الکبير، 18/ 130، الرقم/ 269، وابن عبد البر في التمهيد، 6/ 10، والبيهقي في الاعتقاد/ 146.

حضرت عمران (بن حصین) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کیا اہلِ دوزخ سے اہلِ جنت (کی تفریق) کا علم متعین ہوچکا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ کہا: پھر عمل کرنے والے کس لیے عمل کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر شخص جس کے لیے پیدا کیا گیا ہے اُس کے لیے وہ عمل آسان کر دیا گیا ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

وَفِي رِوَايَةِ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : کُلُّ شَيْئٍ بِقَدَرٍ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَمَالِکٌ وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کل شيء بقدر، 4/ 2045، الرقم/ 2655، ومالک في الموطأ، 2/ 899، الرقم/ 1595، وابن حبان في الصحيح، 14/ 17، الرقم/ 6149، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 205، الرقم/ 20671، وأيضًا في الاعتقاد/ 136، والقضاعي في مسند الشهاب، 1/ 149، الرقم/ 204.

ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز ایک مقررہ مقدار پر بنائی گئی ہے۔

اِسے امام مسلم، مالک اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : ثَـلَاثٌ مِنْ أَصْلِ الإِيْمَانِ: الْکَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ، وَلَا نُکَفِّرُهُ بِذَنْبٍ وَلَا نُخْرِجُهُ مِنَ الْإِسْلَامِ بِعَمَلٍ (وفيه) وَالإيمان بِالأَقْدَارِ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْمَقْدِسِيُّ.

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في الغزو مع أئمة الجور، 3/ 18، الرقم/ 2532، وأبو يعلی في المسند، 7/ 287، الرقم/ 4311-4312، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7/ 285، الرقم/ 2741، وسعيد بن منصور في السنن، 2/ 176، الرقم/ 2367، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 156، الرقم/ 18261، وأيضًا في الاعتقاد/ 188، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 7/ 1227، الرقم/ 2301.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین باتیں ایمان کی جڑ ہیں: جس نے لا إلہ إلّا اﷲ کہا اُس کے قتل سے ہاتھ روکنا، کسی گناہ کے باعث ہم اُس کی تکفیر نہ کریں اور کسی عمل کے باعث اُسے اسلام سے خارج نہ قرار دیں۔ اور (ان میں آخری) تقدیر پر ایمان لانا ہے۔

اِسے امام ابو داود، ابو یعلی اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتّٰی يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ: يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَأَنِّي مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ بَعَثَنِي بِالْحَقِّ وَيُؤْمِنُ بِالْمَوْتِ وَبِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَيُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْمَقْدِسِيُّ وَاللَّالَکَائِيُّ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء في الإيمان بالقدر خيره وشره، 4/ 452، الرقم/ 2145، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب في القدر، 1/ 32، الرقم/ 81، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2/ 66، الرقم/ 443، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 620، الرقم/ 1105.

ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بندہ جب تک چار باتوں پر ایمان نہ لائے مومن نہیں ہو سکتا۔ وہ اِس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک میں محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں مجھے اس نے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، وہ موت پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان لائے اور تقدیر پر ایمان لائے۔

اِسے امام ترمذی، ابن ماجہ، مقدسی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي عَزَّةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا قَضَی اﷲُ لِعَبْدٍ أَنْ يَمُوْتَ بِأَرْضٍ جَعَلَ لَهُ إِلَيْهَا حَاجَةً، أَوْ قَالَ: بِهَا حَاجَةً.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيثٌ صَحِيْحٌ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 227، الرقم/ 22034، والترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء أن النفس تموت حيث ما کتب لها، 4/ 452، الرقم/ 2146، والبزار في المسند، 5/ 275، الرقم/ 1889، والطبراني في المعجم الکبير، 22/ 276، الرقم/ 706، والحاکم في المستدرک، 1/ 102، الرقم/ 127.

حضرت ابو عزہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے لیے کسی مقام کو جائے موت مقرر کر دیتا ہے تو اس طرف (یعنی مقررہ وقت پر اُس جگہ پہنچنے) کے لیے کوئی ضرورت پیدا کر دیتا ہے۔ (راوی کو شک ہے کہ) إِلَيْهَا حَاجَۃ کے الفاظ ہیں یا بِهَا حَاجَۃ کے الفاظ روایت کیے گئے۔

اِسے امام احمد نے اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ترمذی اور حاکم نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه ، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُکْثِرُ أَنْ يَدْعُوَ: اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُکَ الصِّحَّةَ وَالْعِفَّةَ وَالأَمَانَةَ وَحُسْنَ الْخُلُقِ وَالرِّضَا بِالْقَدَرِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.

أخرجه البخاري في الأدب المفرد/ 115، الرقم/ 307، والطبراني في الدعا/ 415، الرقم/ 1406، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 217، الرقم/ 195، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 456، الرقم/ 1852، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 54/ 65، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 173، والسيوطي في الدر المنثور، 2/ 318.

حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے: اے اﷲ! میں تجھ سے صحت، پاک دامنی، امانت داری، حُسنِ خُلق اور تقدیر پر راضی رہنے کا سوال کرتا ہوں۔

اِسے امام بخاری نے الأدب المفرد میں، اور طبرانی، بیہقی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي هِنْدٍ الدَّارِيِّ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: قَالَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: مَنْ لَمْ يَرْضَ بِقَضَائِي وَيَصْبِرْ عَلٰی بَـلَائِي فَلْيَلْتَمِسْ رَبًّا سِوَايَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22/ 320، الرقم/ 807، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 218، الرقم/ 200، والديلمي في مسند الفردوس، 3/ 169، الرقم/ 4449، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 21/ 60، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 207.

ایک روایت میں حضرت ابو ہند الداری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اﷲ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: جو شخص میرے فیصلے پر راضی نہیں اور میری آزمائش پر صابر نہیں، تو اُسے چاہیے کہ وہ میرے سوا کوئی اور رب تلاش کر لے۔

اِسے امام طبرانی، بیہقی، دیلمی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَا تُرْضِيَنَّ أَحَدًا بِسُخْطِ اﷲِ وَلَا تَحْمَدَنَّ أَحَدًا عَلٰی فَضْلِ اﷲِ وَلَا تَذُمَّنَّ أَحَدًا عَلٰی مَا لَم يُؤْتِکَ اﷲُ، فَإِنَّ رِزْقَ اﷲِ لَا يَسُوْقُهُ إِلَيْکَ حِرْصُ حَرِيْصٍ وَلَا يَرُدُّهُ عَنْکَ کَرَهِيَةُ کَارِهٍ، وَإِنَّ اﷲَ تَعَالٰی بِقِسْطِهِ وَعَدْلِهِ جَعَلَ الرَّوْحَ وَالْفَرَحَ فِي الرِّضَا وَالْيَقِيْنِ، وَجَعَلَ الْهَمَّ وَالْحُزْنَ فِي السُّخْطِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10/ 215، الرقم/ 10514، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 221، الرقم/ 208، والقضاعي في مسند الشهاب، 2/ 91، الرقم/ 947، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 209، الرقم/ 798، وذکرہ المنذري في الترغيب والترهيب، 2/ 342، الرقم/ 2648، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4/ 71.

ایک روایت میں حضرت (عبد اﷲ) بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے کر کسی کو ہرگز راضی نہ کرنا۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل پر کسی دوسرے کا ہرگز شکر ادا نہ کرنا۔ جو چیز تجھے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نہ ملے، اُس پر کسی اور کو بُرا بھلا ہرگز نہ کہنا۔ کسی خیر خواہ کی خیر خواہی، اﷲ تعالیٰ کے رزق کو تیرے پاس کھینچ کر نہیں لاسکتی اور نہ ہی کسی بدخواہ کی بدخواہی اُس (رزقِ مقسوم) کو تجھ سے دور کر سکتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے عدل و انصاف کے ساتھ راحت اور خوشی کو اپنی رضا اور یقین میں رکھا ہے اور فکر و غم کو اپنی ناراضگی میں رکھا ہے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا پر سر تسلیم خم کردینے سے راحت نصیب ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین اور بھروسہ کرنے پر خوشی ملتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کی وجہ سے انسان فکر و غم میں مبتلا ہوجاتا ہے)۔

اِسے امام طبرانی، بیہقی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الصَّحَابَةِ وَالسَّلَفِ الصَّالِحِيْنَ
قَالَ عَبْدُ اﷲِ رضی الله عنه : لَا يُؤْمِنُ الْعَبْدُ حَتّٰی يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، يَعْلَمُ أَنَّ مَا أَصَابَهُ لَمْ يَکُنْ لِيُخْطِئَهُ، وَمَا أَخْطَأَهُ لَمْ يَکُنْ لِيُصِيْبَهُ، وَلِأَنْ أَعَضَّ عَلٰی جَمْرَةٍ حَتّٰی تُطْفِيئَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقُوْلَ لِأَمْرٍ قَدَّرَهُ اﷲُ لَيْتَهُ لَمْ يَکُنْ.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 1/ 223، الرقم/ 214.

حضرت عبد اﷲ (بن عباس) رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: بندہ اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ تقدیر پرایمان نہ لے آئے اور اِس بات پر یقین رکھے کہ جو اُسے مل گیا ہے وہ اُس سے رہنے والا نہیں تھا اور جو اُسے نہیں ملا وہ اُسے ہرگز ملنے والا نہ تھا۔ اگر میں آگ کا انگارا منہ میں رکھ لوں، یہاں تک کہ وہ منہ میں بُجھ جائے تو یہ بات میرے لیے اِس بات سے زیادہ آسان ہے کہ میں کسی ایسے معاملہ میں جسے اﷲ تعالیٰ نے مقدر کر دیا ہے ، یہ کہوں: کاش! ایسا نہ ہوتا۔

اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه : ذَرْوَةُ الإِيْمَانِ أَرْبَعٌ: الصَّبْرُ لِلْحُکْمِ، وَالرِّضَا بِالْقَدَرِ، وَالإِخْلَاصُ لِلتَّوَکُّلِ، وَالِاسْتِسْلَامُ لِلرَّبِ.

رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَکِ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّالَکَاءِيُّ.

أخرجه عبد اﷲ بن المبارک في الزهد/ 31، الرقم/ 123، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 219، الرقم/ 202، واللالکائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة، 4/ 676، الرقم/ 1238، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 65/ 374.

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایمان کی چوٹی چار چیزیں ہیں: اﷲ تعالیٰ کے حکم پر صابر رہنا، اﷲ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہنا، اﷲ تعالیٰ پر اخلاص کے ساتھ توکل کرنا اور رب تعالیٰ کے لیے خود سپردگی (یعنی اس کے حکم پر سرِ تسلیم خم کر دینا)۔

اِسے امام ابن مبارک، بیہقی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

رُوِيَ لَمَّا وُضِعَ الْمِنْشَارُ عَلٰی رَأْسِ زَکَرِيَّا عليه السلام هَمَّ أَنْ يَسْتَغِيْثَ بِاﷲِ تَعَالٰی، فَأَوْحَی اﷲُ إِلَيْهِ أَنْ يَّا زَکَرِيَّا، إِمَّا أَنْ تَرْضٰی بِحُکْمِيْ لَکَ، وَإِمَّا أَنْ أُخْرِبَ الْأَرْضَ وَأُهْلِکَ مَنْ عَلَيْهَا؟ فَسَکَتَ حَتّٰی قُطِعَ نِصْفَيْنِ.

ذَکَرَهُ الرِّفَاعِيُّ فِي حَالَةِ أَهْلِ الْحَقِيْقَةِ.

الرفاعي في حالة أهل الحقيقة مع اﷲ/ 133.

مروی ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام کے سر اقدس پر آری رکھی گئی تو اُنہیں خیال آیا کہ وہ بارگاہِ الٰہی میں فریاد کریں، اس پر اللہ تعالیٰ نے اُنہیں فرمایا: اے زکریا! آیا تو میری تقدیرپر راضی ہوتا ہے یا اِس پر راضی ہوتا ہے کہ میں زمین کو تہ و بالا کر کے اُس کے باشندوں کو ہلاک کر دوں؟ اِس پر وہ خاموش ہو گئے یہاں تک کہ اُن کے دو ٹکڑے کر دیے گئے۔

اِسے امام رفاعی نے حالۃ أھل الحقیقۃ مع اﷲ میں بیان کیا ہے۔


Comments

Popular posts from this blog

حضرت ﻋﻼﻣﮧ ﺧﺎﺩﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ صاحب ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺣﯿﺮﺍﻥ

برلن (جرمنی) کی مسجد میں پہلی دفعہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دی گئی۔