صدقہ و خیرات کی قبولیت کا معیار کیا ہے؟
اسلام نے صاحبانِ ثروت پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے عطاء کردہ مال سے معاشرے کے پسماندہ طبقات کی مدد و معاونت کریں۔ صدقات اسلام کے نظامِ معیشت کا لازمی جزو ہیں جن کا مقصد غرباء کی مدد کے ساتھ معاشرے میں ارتکازِ دولت کا خاتمہ کر کے گردشِ دولت میں اضافہ کرنا ہے۔ مزید یہ کہ صدقات و خیرات اللہ تعالیٰ کی رضا کا بھی ذریعہ ہیں۔ قرآنِ مجید نے صدقات و خیرات کی ادائیگی کا ضابطہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:
الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ثُمَّ لاَ يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُواْ مَنًّا وَلاَ أَذًى لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ. قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَآ أَذًى وَاللّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ.
جو لوگ ﷲ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر اپنے خرچ کئے ہوئے کے پیچھے نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ اذیت دیتے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (سائل سے) نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد (اس کی) دل آزاری ہو، اور ﷲ بےنیاز بڑا حلم والا ہے۔
البقرة، 2: 262-263
درج بالا آیت میں اُن صدقات کو عنداللہ ماجور قرار دیا گیا ہے جن کی ادائیگی کا مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو اور جنہیں ادا کرنے کے بعد صاحبِ ثروت شخص احسان نہ جتائے اور دوسروں کو خود سے حقیر نہ سمجھے۔ جس صدقے کا مقصد نام و نمود اور شہرت کا حصول ہو خدا کے حضور اس کا کوئی اجر نہیں ہوتا۔ اسی طرح کسی کی مالی مدد کے بعد احسان جتا کر یا طعنہ دے کر اس کو تکلیف دینا اور اس کی عزتِ نفس مجروح کرنا صدقات و خیرات کا اجر ضائع کر دیتا ہے۔
صدقہ و خیرات سمیت دیگر عبادات کی قبولیت کے متعلق قرآن مجید نے اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ. أُوْلَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ.
اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں اتنا کچھ) دیتے ہیں جتنا وہ دے سکتے ہیں اور (اس کے باوجود) ان کے دل خائف رہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں (کہیں یہ نامقبول نہ ہو جائے)۔ یہی لوگ بھلائیوں (کے سمیٹنے میں) جلدی کر رہے ہیں اور وہی اس میں آگے نکل جانے والے ہیں۔
الْمُؤْمِنُوْن، 23: 60-61
گویا عبادات کی قبولیت کا معیار تقوی ہے۔ جو عمل اللہ تعالیٰ کی رضا اور اجر کی نیت سے کیا جائے اس کی قبولیت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ بعض علماء نے عبادت کے بعد پھر عبادت کی ترغیب، عبادات کا آسان ہونا، عبادت کرنے کو دل مچلنا، عبادات پر ثابت قدمی اور دوام کو عبادات کی قبولیت کی علامت قرار دیا ہے، مگر یاد رہے کہ علماء کی بتلائی ہوئی قبولیتِ عبادت کی یہ علامات حسنِ ظن کی بنیاد پر مبنی ہیں۔ اعمال کی قبولیت کا فیصلہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جو انسانوں پر قیامت کے دن ہی ظاہر ہوگا، دنیا میں کسی عمل کی قبولیت کا یقینی دعویٰ خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
Comments
Post a Comment