کھانا سامنے رکھکر قرآن پڑھنا اور ایصال ثواب کا جواز

بسم اللہ الرحمن الرحیم : اہلسنت کے معمولات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم لوگ کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ , اخلاص یا پھر قرآن مجید کی دیگر آیات کی تلاوت کرتے ہیں جب کہ ہمارے مخالفین اس جائز عمل کو بدعت سیئہ,مکروہ اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں باوجود اس کے کہ ہم اہلسنت اپنے دیگر معمولات کی طرح اس کا ثبوت بھی قرآن و سنت سے پیش کرتے ہیں,مگر یہ حق والوں یعنی اہلسنت کی عداوت ہی کی سزا ہے کہ ہمارے مخالفین ثبوت و دلائل مل جانے کے بعد بھی ہم پر زبان طعن بلاوجہ دراز کرکے اپنی آخرت خراب کرتے رہتے ہیں اور اسی کے ساتھ امت محمدیہ میں انتشار و افتراق کی وجہ بنتے ہیں جو کہ نہایت افسوس ناک امر ہے ۔ اب چونکہ کھانا سامنے رکھ کر قرآن ہم پڑھتے ہیں لہذا اپنے اس عمل کی تشریح و توضیح کا حق بھی صرف ہم کو ہے۔
اہلسنت کے نزدیک : صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یوہیں وہ لوگ جو اپنے کو حنفی کہتے ہیں اور ایصال ثواب سے انکار کرتے ہیں وہ بھی اس سے باز آجائیں کہ علاوہ حدیث کے کتب معتبرہ مستندہ حنفیہ کی متعدد عبارتیں پیش کر ذی ہیں کہ انکار کی گنجائش باقی نہیں اور غالباً انہیں مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے یہ لوگ اپنی طرف سے کچھ باتیں اضافہ کرکے اسے بدعت و ناجائز کہتے ہیں ورنہ ان کے متقدمین تو سرے سے ایصال ثواب سے ہی انکار کرتے تھے اور دلیل وہی پیش کرتے تھے جو معتزلہ پیش کرتے تھے مگر جب اہلسنت کے دلائل باہرہ کا جواب نہ ہوسکا تو عدم جواز کا دوسرا پہلو نکالا کبھی کہتے ہیں کھانے پر فاتحہ پڑھنا ناجائز ہے اور کبھی یہ کہ ہاتھ اثھا کر فاتحہ پڑھ کر دعا کرنا کبھی یہ کہ کھانا سامنے رکھنا کبھی یہ کہ دن کی تخصیص کرنا غرض ایسی ہی باتیں پیش کر کے ایصال ثواب کو روکنا چاہتے ہیں ۔ اقول (میں کہتا ہوں) قرآن مجید کی قرأت وجہ ممانعت ہو جائے یہ عجیب بات ہے جب صدقہ اور قرأت قرآن دونوں چیزوں کا ثواب پہنچ سکتا ہے جیسا کہ کتب معتبرہ فقہ سے ثابت ہے عبارات پہلے گزر چکیں تو اگر یہ دونوں کام ایک وقت میں کئے جائیں تو ناجوازی کی کیا وجہ ہے؟
کیا اس وقت قرآن پڑھنا ناجائز ہے؟ یا تصدق ناجائز ہے؟اور جب دونوں جائز تو ایک ساتھ بھی جائز"( فتاویٰ امجدیہ جلد اول صفحہ٣٥٠مطبوعہ دائرہ المعارف الامجدیہ )
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمتہ بھی جواز کے قائل ہیں.دیکھئے!
( جآء الحق جلد اول صفحہ٢٦١مطبوعہ نعیمی کتب خانہ لاہور )
مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین رضوی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : "کھانا وغیرہ سامنے رکھ کر قرآن مجید میں سے کچھ سورتیں پڑھی جائیں اور اس کے بعد ایصال ثواب اور دعا کی جائے یہ اہلسنت کے نزدیک جائز ہے"
( وقار الفتاویٰ جلد اول صفحہ١٩٩مطبوعہ بزم وقارالدین کراچی )
عصر حاضر کی معروف علمی شخصیت امام المناظرین شیخ القرآن علامہ فہامہ امام پروفیسر محمد سعید احمد اسعد صاحب دام ظلہ و زید مجدہ فرماتے ہیں : "یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ ایصال ثواب کیلئے کھانا شرط ہے اور کھانے پر قرآن حکیم پڑھنا شرط ہے.ہمارے نزدیک اگر کسی نے صرف کھانا پکا کر کسی کو کھلا کر اس کا ثواب میت کو پہنچایا تب بھی جائزاگر صرف قرآن حکیم پڑھ کر اس کا میت کو ثواب بخشا تب بھی جائزاگر کسی نے قرآن حکیم بھی پڑھا اور کھانا بھی پکایا لیکن کھانے پر قرآن حکیم نہیں پڑھا بلکہ الگ پڑھا اور ان دونوں چیزوں کا ثواب میت کو پہنچایا تب بھی جائزہاں ہاں اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ جب تک کھانے پر قرآن حکیم کی چند مخصوص آیات نہ پڑھی جائیں اتنی دیر تک میت کو ثواب پہنچ ہی نہیں سکتا وہ در حقیقت شریعت مطہرہ پر افتراء کرنے والا ہے اس کو اپنے اس گندے عقیدے سے توبہ کرنی چاہیئے۔ اسی طرح اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اگر صرف کھانے کا ثواب میت کو بھیجا جائے تو پہنچے گا اسی طرح اگر صرف قرآن خوانی کی جائے تو اس کا ثواب بھی پہنچے گا لیکن اگر کھانا سامنے رکھ کر قرآن اوپر پڑھا جائے تو ثواب نہیں پہنچے گا بلکہ ایسا کرنا بدعت اور گناہ ہوگا یہ عقیدہ رکھنے والا بھی شریعت مطہرہ افتراء کرنے والا ہے ایسے شخص کو بھی ایسے گندے عقیدے سے توبہ کرنی لازم ہے ۔
ہاں اگر کوئی اس گندے عقیدے پر اصرار کرے تو اس پر لازم ہے کہ وہ قرآن حکیم , احادیث مبارکہ سے ایسی تصریح پیش کرے کہ قرآن حکیم اور طعام کا ثواب الگ الگ ہونے کی صورت میں تو میت کو پہنچے گا لیکن اگر کھانے پر قرآن حکیم پڑھا جائے تو گناہ ہوگا" فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ۔ ( مسئلہ ایصال ثواب صفحہ نمبر ٥٠ تا ٥٢ مطبوعہ سنی اتحاد شیخ کالونی فیصل آباد )
ان بزرگان اہلسنت کی تصریح و تشریح و توضیح سے معلوم ہوا کہ ہم اہلسنت کھانا سامنے رکھ کر قرآن مجید پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں نہ کہ فرض واجب اور ایسے ہی اس عمل کے تارک کو نشانۂ طعن بھی نہیں بناتے البتہ اس عمل کو بدعت وغیرہ کہنے والے حضرات کو شریعت پر افتراء کی وجہ سے قصور وار ضرور ٹھہراتے ہیں علماء اہلسنت کی اس صراحت کے باوجود مخالفین ہمیں کیا کیا الزام دیتے ہیں؟ اس کی جھلک بھی ملاحظہ ہو!
مخالفین کے الزام : حنفیت کے دعویدار علماء دیوبند دیگر مسائل کی طرح اس مسئلے میں بھی غیر معمولی شدت اختیار کئے ہوئے ہیں جو عوام الناس کیلئے بہرحال درست نہیں ۔ دیوبندی حضرات کے قطب مفتی رشید احمد گنگوہی اپنی بھڑاس کچھ اندا ز سے نکالتے ہیں۔
"سوال :- فاتحہ کا پڑھنا کھانے پر یا شیرینی پر بروز جمعرات کے درست ہے یا نہیں؟
جواب :- فاتحہ کھانے یا شیرینی پر پڑھنا بدعت ضلالت ہے ہرگز نہ کرنا چاہئیے"
اس سے پہلے والے سوال کا بھی کچھ اسی طرح کا جواب ہے جس میں اس عمل کو بدعت سیئہ کہا گیا ہے.( فتاویٰ رشیدیہ صفحہ١٤٢ کتاب العلم مطبوعہ ادارۂ صدائے دیوبند )
ایک اور مقام پر یوں ہے سوال اور جواب دونوں ملاحظہ ہوں :
" سوال :- فاتحہ,تیجہ,دسواں کرنا کیسا ہے ؟ زید کہتا ہے کہ چنوں پر فاتحہ سوم میں اللہ کا نام پڑھنا موجب ثواب ہے کہ اس سے ایصال ثواب منظور ہے اور یہ طریقہ بزرگان سلف سے چلا آتا ہے اس میں کچھ حرج نہیں ہے اور فتاویٰ عزیزی میں یہ طریقہ لکھا ہے پس زید کا قول تمام ہوا ان چنوں کا کھانا کیسا ہے "
جواب :- یہ جملہ امور بدعت ہیں صرف ایصال ثواب جائز ہے باقی قیودات بدعت ہیں"
اسی طرح اس کے بعد والے سوال کا جواب بھی کچھ یوں ہے کہ یہ سب امور بدعت ہیں ۔ ( فتاویٰ رشیدیہ صفحہ١٤٥ مطبوعہ ادارۂ صدائے دیوبند )
تعصب و ہٹ دھرمی کی انتہاء ہے کہ سوال میں چنوں پر اللہﷻ کا نام پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو جواب آیا کہ بدعت ہے حالانکہ کلام مجید اس بارے میں اس کے بالکل برعکس فرماتا ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے : "فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُم بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ"
ترجمہ : تو کھاؤ اس میں سے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اگر تم اس کی آیتیں مانتے ہو
( سورہ انعام آیت ١١٨ پارہ ٨ )
بلکہ اس سے اگلی آیت کریمہ میں گنگوہی اینڈ کمپنی کیلئے لمحۂ فکریہ ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : "وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ"
ترجمہ : اور تمہیں کیا ہوا ہے کہ اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا وہ تو تم پر مفصل بیان کر چکا جو کچھ تم پر حرام ہوا مگر جب تمہیں اس سے مجبوری ہو بے شک بہتیرے اپنی خواہشوں سے گمراہ کرتے ہیں بے جانے بے شک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے.( سورہ انعام آیت ١١٩ پارہ ٨ )
قارئین کرام سے گزارش ہے کہ گنگوہی صاحب کا فتویٰ سوال جواب دونوں پڑھیں اور پھر مذکورہ بالا آیت کریمہ کو بھی پڑھیں اور پھر فیصلہ اپنے دل سے لیں کیا آیت کا مضمون لمحۂ فکریہ نہیں ؟

قرآن حکیم پہلے حکم فرماتا ہے کہ اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا مگر گنگوہی صاحب اسے بدعت کہتے ہیں اور پھر قرآن حکیم اپنے حکم پر عمل نہ کرنے والوں سے پوچھتا ہے کہ تم اس میں سے کیوں نہیں کھاتے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اور اگر تم اسے بھی حرام سمجھتے ہو تو تمہارا سمجھنا باطل اور وہم ہے کیونکہ حرام کا ذکر تو تفصیلاً ہو چکا
اگر یہ عمل بھی حرام ہوتا تو حرام کردہ چیزوں میں ضرور بیان ہوتا پھر فرمایا
یہ صرف تمہارا وہمِ باطل ہی نہیں بلکہ تمہاری خواہش نفسانی ہے جس سے تم لوگوں کو ایسے فتوے دیکر گمراہ کرتے ہو
اور پھر ساری زندگی کی پڑھائی لکھائی پر پانی پھیرتے ہوئے فرمایا "بغیر علم"
ایسا اس لئے ہوا کیونکہ تم جاہل ہو اور پھر ساتھ ہی فرمایا کہ چند کتابیں پڑھ لینے سے تم عالم نہیں بنے بلکہ اس پڑھائی کے بل بوتے پر جو تم لوگوں کو گمراہ کر رہے ہو تو تم حدیں پھلانگ رہے ہو
تب ہی تو فرمایا : بے شک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے ۔
اسی لئے نائب محدث اعظم رحمۃ اللہ علیہ پاکستان شیخ الحدیث محمد عبدالرشید صاحب علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : "یعنی جس پاکیزہ چیز پر بھی اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے اسے کھانا جائز ہے لہذا تیجا,ساتا,دسواں,چالیسواں,سالانہ,گیارہویں شریف,بارہویں شریف,شب برأت وغیرہا کے کھانے جائز ہوئے کیرنکہ ان کھانوں پر قرآن شریف,درود شریف,ذکر و اذکار پڑھے جاتے ہیں جو انہیں حرام سمجھے وہ شریعت پر زیادتی کرتا ہے ۔
( رشد الایمان صفحہ ١٩٧ مطبوعہ مکتبہ رشد الایمان سمندری )
اس کے علاوہ سائل کے ان الفاظ پر بھی غور ہو کہ یہ طریقہ بزرگان سلف سے چلا آتا ہے
مگر گنگوہی صاحب ہیں کہ بنا اس بات کا ردّ کئے بدعت کا فتویٰ داغ رہے ہیں اب اس فتوے کی زد میں کون کون سے بزرگ آتے ہیں یہ آگے چل کر عرض کروں گا ,
سوال میں ایک بات اور قابل غور ہے کہ بقول سائل یہ طریقہ فتاویٰ عزیزی میں مذکور ہے مگر اس کے باوجود بھی گنگوہی صاحب کا قلم بدعت لکھے بغیر رہ نہ سکا اور یوں شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی جیسی علمی شخصیت کے سر بدعت کا تاج سجا دیا گیا. (انا للہ وانا الیہ راجعون)
وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ
فتاوٰی رشیدیہ میں پوچھے گئے سوال میں سائل کے سوال میں دوسری بات "یہ طریقہ بزرگان سلف سے چلا آتا ہے" پر کلام ان شاءاللہ آگے چل کر کریں گے,
فی الحال سائل کے سوال میں فتاوٰی عزیزی کے حوالے پر کلام پیش خدمت ہے!
گنگوہی صاحب نے جس شخصیت کے فتاوٰی عزیزی کا حوالہ آجانے پر بھی بے دھڑک بدعت کا فتویٰ صادر کیا یہ وہی شخصیت ہیں جن کے مدّاح خود علماء دیوبند بھی ہیں ۔
دیوبندی مفتی عزیزالرحمٰن صاحب لکھتے ہیں ؛ "حضرت مولانا شاہ عبدالعزیزؒ کے علم و فضل و تقویٰ میں کسی کو کلام کی گنجائش نہیں"
اس کے بعد اگلے سوال کے جواب میں حضرت شاہ صاحب کو علماء کبار و اولیائے کرام میں سے لکھا ہے ۔ ( فتاوٰی دارالعلوم دیوبند جلد18 صفحہ581 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی )
دیوبندی شیخ الحدیث مولوی سرفراز خان صفدر گکھڑوی لکھتے ہیں :
"بلاشبہ مسلک دیوبند سے وابستہ جملہ حضرات حضرت شاہ عبدالعزیز صاحبؒ کو اپنا روحانی پدر تسلیم کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں"
آگے لکھتے ہیں : "بلاشک دیوبندی حضرات کیلئے حضرت شاہ عیدالعزیز صاحبؒ کا فیصلہ حکم آخر کی حیثیت رکھتا ہے"
( اتمام البرھان فی ردّ توضیح البیان حصّہ اول صفحہ نمبر138 مطبوعہ مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ )
لطف کی بات یہ ہے کہ خود گنگوہی صاحب حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے جو نظریہ رکھتے ہیں وہ قابل غور ہے.شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے خاندان کے متعلق لکھتے ہیں کہ : "بندہ خاندان حضرت شاہ ولی اللہ صاحب میں بیعت ہے اور اسی خاندان کا شاگرد ہے گو ان کے عقائد کو حق اور تحقیقات کو صحیح جانتا ہے"
پھر آگے شاہ عبدالعزیز صاحب اور ان کی تفسیر کا ذکر ہے :
( فتاوٰی رشیدیہ صفحہ58 مطبوعہ ادارۂ صدائے دیوبند )
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی علماء دیوبند کے قلم سے اس قدر تعریف کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے کہ شاہ صاحب کی شخصیت اور ان کی تصانیف کا علماء دیوبند کے ہاں کیا مقام ہے ۔ اور بقول سرفراز صفدر صاحب کے شاہ صاحب کا فیصلہ دیوبندی حضرات کیلئے حکم آخر ہے ۔
(حوالہ پہلے گزر چکا)
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ علیہ کا فیصلہ
اب حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ علیہ کا فیصلہ ملاحظہ ہو : ایک سوال کے جواب میں شاہ صاحب فرماتے ہیں ۔ "جواب:- جس کھانے کا ثواب حضرت امامین ؓ کو پہنچایا جائے اور اس پر فاتحہ و قُل درود پڑھا جائے وہ کھانا تبرّک ہو جاتا ہے اس کا کھانا بہت خُوب ہے"( فتاوٰے عزیزی صفحہ 189 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ) ۔ والحمد للہ علیٰ ذالک ۔
لیجئے محترم قارئین : حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ علیہ اس کھانے جس پر صرف فاتحہ ہی نہیں بلکہ قل اور درود بھی پڑھا جائے کو برکت والا کھانا کہہ رہے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ اسے کھانے کو خوب کہہ کر یہ واضح کیا جارہا ہے کہ اس کا تعلق کسی بدعت یا ناجائز امر سے قطعاً نہیں اب غیرت کا تقاضا تو یہ ہے کہ دیوبندی حضرات اپنے اکابر کے قلم سے نکلے ہوئے جملوں کا پاس رکھیں اور شاہ عبدالعزیز صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے اس فیصلے کو حرف آخر سمجھتے ہوئے اس جائز عمل کو بدعت و ناجائز کہنا چھوڑ دیں اور نہ صرف یہ بلکہ خود اس پر عمل کرکے بھی دکھائیں تاکہ ہمیں یقین واثق ہو جائے کہ دیوبندی حضرات کو اپنے اکابر کے قلم سے نکلے ہوئے لفظوں کی غیرت اور پاس ہے اور یہ حضرات واقعی حضرت شاہ صاحب کے فیصلے کو حکم آخر سمجھتے ہیں ! (فافھم) وگرنہ روحانی باپ اور باپ بھی وہ جس پر بقول سرفراز صفدر دیوبندیوں کو فخر ہے کی نا فرمانی کا سہرا علماء دیوبند کے سرماتھے ہوگا .


Comments

Popular posts from this blog

حضرت ﻋﻼﻣﮧ ﺧﺎﺩﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ صاحب ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺣﯿﺮﺍﻥ

برلن (جرمنی) کی مسجد میں پہلی دفعہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دی گئی۔