ایمان ابی طالب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نوٹ: زیر نظر بلاگ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے رسالہ بنام " شرح المطالب فی مبحث ابی طالب " سے کاپی شدہ ہے

اور ابوطالب اس کی بارگاہ کے قریب کے باوجود اس کی بارگاہ قرب سے محروم رہے۔
اس میں شک نہیں کہ ابوطالب تمام عمر حضور سیّد المرسلین سیّدالاولین و الاخرین سیدالابرار صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلی آل وسلم الٰی یوم القرار کی حفظ و حمایت و کفایت و نصرت میں مصروف رہے ۔ اپنی اولاد سے زیادہ حضور کو عزیز رکھا، اور اس وقت میں ساتھ دیا کہ ایک عالم حضور کا دشمنِ جاں ہوگیا تھا، اور حضور کی محبت میں اپنے تمام عزیزون قریبیوں سے مخالفت گوارا کی، سب کو چھوڑ دینا قبول کیا، کوئی دقیقہ غمگساری و جاں نثاری کا نامرعی نہ رکھا، اور یقیناً جانتے تھے کہ حضور افضل المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اﷲ کے سچے رسول ہیں، ان پر ایمان لانے میں جنت ابدی اور تکذیب میں جہنم دائمی ہے، بنوہاشم کو مرتے وقت وصیت کی کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تصدیق کرو فلاح پاؤ گے، نعت شریف میں قصائدان سے منقول ، اور اُن میں براہ فراست وہ امور ذکر کیے کہ اس وقت تک واقع نہ ہوئے تھے۔ بعد بعثت شریف ان کا ظہور ہوا، یہ سب احوال مطالعہ احادیث و مراجعتِ کُتب سیر سے ظاہر، ایک شعر ان کے قصیدے کا صحیح بخاری شریف میں بھی مروی :

وابیض یستسقی الغمام بوجھہ ثمال الیتامٰی عصمۃ للارامل

 ( وہ گورے رنگ والے جن کے رُوئے روشن کے توسّل سے مینہ برستا ہے، یتیموں کے جائے پناہ بیواؤں کے نگہبان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔)

 (صحیح البخاری ابواب الاستسقاء باب سوال الناس الامام الاستسقاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۳۷)

محمد بن اسحٰق تابعی صاحبِ سیر و مغازی نے یہ قصیدہ بتما مہما نقل کیا جس میں ایک سو ۱۱۰ دس بیتیں مدحِ جلیل و نعتِ منیع پر مشتمل ہیں۔ شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ، شرح صراطِ مستقیم میں اس قی صدہ کی نسبت فرماتے ہیں :

دلالت صریح داروبرکمال محبت ونہایت نبوت او، انتہی

یہ قصیدہ ابوطالب کی رسول ا ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ کمال محبت اور آپ کی نبوت کی انتہائی معرفت پر دلالت کرتا ہے۔

 ( شرح سفر السعادۃ فصل دربیان عیادت بیماراں مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲۴۹)

مگر مجردان امور سے ایمان ثابت نہیں ہوتا۔ کاش یہ افعال واقوال اُن سے حالتِ اسلام میں صادر ہوتے تو سیّدنا عباس بلکہ ظاہراً سیّدنا حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے بھی افضل قرار پاتے اور افضل الاعمام حضور افضل الانام علیہ وعلٰی آلہ وافضل الصلوۃ والسلام کہلائے جاتے ۔ تقدیر الہٰی نے بربنا اُس حکمت کے جسے وہ جانے یا اُس کا رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہیں گروہِ مسلمین و غلامانِ شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں شمار کیا جانا منظور نہ فرمایا۔

آیاتِ قرآنیہ و احادیثِ صحیحہ متوافرہ متظافرہ سے ابوطالب کا کفر پر مرنا اور دم واپسیں ایمان لانے سے انکار کرنا اور عاقبت کا ر اصحاب نار سے ہونا ایسے روشن ثبوت سے ثابت جس سے کسی سنی کو مجالِ دم زدن نہیں،

  قال اﷲ تبارک و تعالٰی
انک لاتھدی من احببت ولکن اﷲ یھدی من یشاء وھو اعلم بالمھتدین

اے نبی ! تم ہدایت نہیں دیتے جسے دوست رکھو ہاں خدا ہدایت دیتا ہے جسے چاہے وہ خوب جانتا ہے جو راہ پانے والے ہیں۔

 ( القرآن الکریم ۲۸ /۵۶)

مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیہ کریمہ ابوطالب کے حق میں نازل ہوئی۔

صحیح حدیث میں اس آیہ کریمہ کا سبب نزول یوں مذکور کہ جب حضور اقدس سید المر سلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ابو طالب سے مرتے وقت کلمہ پڑھنے کو ارشاد فرمایا، صاف انکار کیا اور کھا مجھے قریش عیب لگائیں گے کہ موت کی سختی سے گھبراکر مسلمان ہوگیا ورنہ حضور کی خوشی کردیتا ۔ اس پر رب العزت تبارک و تعالی نے یہ آیت کریمہ اتاری یعنی اے حبیب تم اس کا غم نہ کرو تم اپنا منصب تبلیغ ادا کرچکے ہدایت دینا اور دل میں نور ایمان پیدا کرنا یہ تمھارا فعل نہیں اللہ عزوجل کے اختیار میں ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ کسے یہ دولت دے گا کسے محروم رکھے گا۔

صحیح مسلم شریف کتاب الایمان وجامع ترمذی کتاب التفسیر میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ مروی: قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لعمہ (زاد مسلم فی اخری عند الموت ) قل لا الہ الا اللہ اشھد لک بھا یوم القیٰمۃ قال لولا ان تعیرنی قریش یقولون انما حملہ علی ذلک الجزع لاقررت بھا عینک فانزل اللہ عزوجل انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ نے اپنے چچا سے فرمایا (مسلم نے دوسری روایت میں یہ اضافہ کیا کہ بوقت موت فرمایا) لاالہ الا اللہ کہہ دو میں تیرے لئے قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا۔ اس نے جواب دیا : اگر یہ بات نہ ہوئی کہ قریش مجھے عار دلائیں گے کہ موت کی شدت کے باعث مسلمان ہوگیا تو میں آپ کی آنکھ ٹھنڈی کردیتا۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ : اے نبی ! _تم ہدایت نہیں دیتے جسے دوست رکھو، ہاں خدا ہدایت دیتاہے جسے چاہے ۔

قال جل جلالہ
ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولوکانوا اولی قربی من بعد ما تبین لھم انھم اصحٰب الجحیم۔ ۲؂۔

روا نہیں نبی اور ایمان والوں کو کہ استغفار کریں مشرکوں کے لئے اگرچہ وہ اپنے قرا بت والے ہوں بعد اس کے کہ ان پر ظاہر ہوچکا کہ وہ بھڑکتی آگ میں جانیوالے ہیں۔
(القرآن الکریم ۹/ ۱۱۳)

یہ آیت کریمہ بھی ابو طالب کے حق میں نازل ہوئی۔

صحیح بخاری و صحیح مسلم و سنن نسائی میں ہے :

واللفظ محمد قال حدثنا محمود فذکر بسندہ عن سعید بن المسیب عن ابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہما ان اباطالب لما حضرتہ الوفاۃ دخل علیہا النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و عندہ ابوجہل فقال ای عم قال لا الہٰ الا اللہ کلمۃ احاج لک بہا عند اﷲ فقال ابوجہل وعبداﷲ بن امیّۃ یا اباطالب اترغب عن ملّۃ عبدالمطلب فلم یزالا یکلمانہ حتی قال اخرشیئ کلمھم بہ علی ملۃ عبدالمطلب (زادالبخاری فی الجنائز و تفسیر سورۃ القص ص کمثل مسلم فی الایمان وابی ان یقول لا الٰہ الا اﷲ) فقال النبی صلی اللہ عالٰی علیہ وسلم لا ستغفرن لک مالم انہ عنہ، فنزلت ماکان للنبی والذین اٰمنوا ان یستغفروا للمشرکین ولوا اولی قربٰی من بعد ماتبین لھم انہم اصحب الجحیم ، ونزلت انک لاتھدی من احببت

اور لفظ محمد کے ہیں، انہوں نے کہا ہم کو حدیث بیان کی محمود نے، پھر اپنی سند کے ساتھ سعید بن مسیب سے اور انہوں نے اپنے باپ سے ذکر کیا۔ رضی ا للہ تعالٰی عنہما ، کہ ابو طالب جب قریب الموت ہوئے تو رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے جب کہ ابوجہل اور عبداللہ بن امیّہ وہاں موجود تھے۔ آپ نے فرمایا اے چچا کلمہ طیبہ لا الہٰ الا اﷲ پڑ ھ لو میں اس کے ذریعے تمہارے لیے جھگڑا کروں گا۔ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا: اے ابوطالب ! کیا عبدالمطلب کے دین سے اعراض کرلو گے؟ وہ دونوں مسلسل ابوطالب سے یہی بات کہتے رہے ، یہاں تک کہ ابوطالب نے جو آخری بات انہیں کہی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں۔ (امام بخاری نے جنائز اور سورہ قص ص کی تفسیر میں یہ اضافہ کیا جیسا کہ امام مسلم نے کتاب الایمان میں کیا ہے کہ ابو طالب نے لا الہٰ اﷲ کہنے سے انکار کردیا) تو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک مجھے منع نہ کردیا گیا میں تیرے لیے ضرور استغفار کروں گا۔، چنانچہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی روا نہیں نبی اور ایمان والوں کو کہ استغفار کریں مشرکوں کے لیے اگرچہ وہ اپنے قرابت والے ہوں بعد اس کے کہ ان پر ظاہر ہوچکا کہ وہ بھڑکتی آگ میں جائیں گے ۔ اور یہ آیت نازل ہوئی ۔ اے نبی ! تم ہدایت نہیں دیتے جسے دوست رکھو۔ 

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب اذاقال المشرک عندالموت لا الہٰ الا اﷲ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۸۱)

( صحیح البخاری کتاب المناقب باب قصہ ابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۴۸)

(صحیح البخاری کتاب التفسیرسورۃ البراء ۃ باب ماکان للنبی والذین اٰمنوا لخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۶۷۵)

(صحیح البخاری کتاب التفسیرسورۃ القصص باب قولہ تعالٰی انک لاتہدی من احببت قدیمی کتب خانہ ۲ /۷۰۳)

(صحیح مسلم ، کتاب الایمان باب الدلیل علی صحۃ الاسلام من حضر الموت قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۰)

(سنن النسائی کتاب الجنائز النہی عن الاستغفار للمشرکین نور محمد کارخانہ تجارت کراچی ۱ /۲۸۶)

اس حدیث جلیل سے واضح کہ ابو طالب نے وقتِ مرگ کلمہ طیبہ سے صاف انکار کردیا اور ابوجہل لعین کے اغوا سے حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد قبول نہ کیا۔ حضور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس پر بھی وعدہ فرمایا کہ جب تک اﷲ عزوجل مجھے منع نہ فرمائے گا میں تیرے لیے استغفار کروں گا۔ مولٰی سبحنہ و تعالٰی نے یہ دونوں آیتیں اتاریں اور اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ابوطالب کے لیے استغفار سے منع کیا اور صاف ارشاد فرمایا کہ مشرکوں دوزخیوں کے لیے استغفار جائز نہیں۔

قال عزّ مجدہ
وھم ینھون عنہ وینأون عنہ وان یھلکون الا انفسھم و مایشعرون 

وہ اس نبی سے اوروں کو روکتے اور باز رکھتے ہیں اور خود اس پر ایمان لانے سے بچتے اور دور رہتے ہیں اور اس کے باعث وہ خود اپنی ہی جانوں کو ہلاک کرتے ہیں اور انہیں شعور نہیں۔

 ( القرآن الکریم ۶ / ۲۶)

یعنی جان بوجھ کر جو بے شعوروں کے سے کام کرے اس سے بڑھ کر بے شعور کون ،  

سلطان المفسرین سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما اور اُن کے تلمیذ رشید سیدنا امام اعظم کے استاد مجید امام عطاء بن ابی رباح و مقاتل وغیرہم مفسرین فرماتے ہیں، یہ آیت ابو طالب کے باب میں اُتری ۔

فریابی اور عبدالرزاق اپنے مصنف اور سعید بن منصور سنن میں اور عبد بن حمید اور ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم و طبرانی وا بوا لشیخ وابن مردویہ اور حاکم مستدرک میں بافادہ تصحیح اور بہیقی دلائل النبوۃ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اس کی تفسیر میں راوی :

قال نزلت فی ابی طالب کان ینھٰی عن المشرکین ان یؤذوا رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یتباعد عما جاء بہ

یعنی یہ آیت ابوطالب کے بارے میں اُتری کہ وہ کافروں کو حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ایذا سے منع کرتے باز رکھتے اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ایمان لانے سے دور رہتے۔

( الدرالمنثور بحوالہ الفریابی و عبدالرزاق وغیرہ تحت آلایۃ ۶ /۲۶ داراحیاء التراث العربی ۳ /۲۳۷)

(جامع البیان ( تفسیر طبری) تحت آیۃ ۶ /۲۶ داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۲۰۲)

(دلائل النبوۃ للبیھقی جماع ابواب المبعث باب وفاۃ ابی طالب ، دارالکتب العلمیہ بیروت۲ /۳۴۰)

(تفسیر ابن ابی حاتم تحت آیہ ۶/ ۲۶ مکتبہ نزار مصطفٰی البازمکہ مکرمہ ریاض ۴ /۱۲۷۷)

صحیحین و مسند امام احمد میں حضرت سیدنا عباس عمِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ہے۔

انہ قال للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ما اغنیت عن عمک فواﷲ کان یحوطک ویغضب لک قال ھو فی ضحضاح من نارولولا انا لکان فی الدرک الاسفل من النار۲ ؂۔ وفی روایۃ وجدتہ غمرات من النار فاخرجتہ الٰی ضحضاح

یعنی انہوں نے خدمت ِ اقدس حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں عرض کی حضور نے اپنے چچا ابوطالب کو کیا نفع دیا؟ خدا کی قسم وہ حضور کی حمایت کرتا اور حضور کے لیے لوگوں سے لڑتا جھگڑتا تھا۔ فرمایا میں نے اسے سراپا آگ میں ڈوبا ہوا پایا تو اُسے کھینچ کر پاؤں تک آگ میں کردیا اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں ہوتا۔

( صحیح البخاری کتاب المناقب باب قصۃ ابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۴۸)

( صحیح البخاری کتاب الادب باب کنیۃ المشرک قدیمی کتب خانہ کراچی۲ /۹۱۷)

( صحیح مسلم کتاب الایمان باب شفاعۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی۱ /۱۱۵)

(مسند احمد بن حنبل عن العباس المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۰۷ و ۲۱۰)

( صحیح مسلم کتاب الایمان باب شفاعۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لابی طالب ۱ /۱۱۵)

امام ابن حجر فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں :

یؤید الخصوصیۃ انہ بعد ان امتنع شفع لہ جتی خفف لہ العذاب بالنسبۃ لغیرہ 

یعنی نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خصوصیت سے ہوا کہ ابو طالب نے باآنکہ ایمان لانے سے انکار کیا پھر بھی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شفاعت نے اتنا کام دیا کہ بہ نسبت باقی کافروں کے عذاب ہلکا ہوگیا۔

 ( فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ القصص باب قولہ انک لاتہدی مصطفٰی البابی مصر۱۰/ ۱۲۳)

حدیث پنجم : صحیحین و مسند امام احمد میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے :

 ان رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ذکر عندہ عمہ ابوطالب فقال لعلہ تنفعہ شفاعتی یوم القیمۃ فیجعل فی ضحضاح من النار یبلغ کعبیہ یغلی منہ دماغہ

یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سامنے ابو طالب کا ذکر آیا فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ روزِ قیامت میری شِاعت اسے یہ نفع دے گی کہ جہنم میں پاؤں تک کی آگ میں کردیا جائے گا جو اس کے ٹخنوں تک ہوگی جس سے اس کا دماغ جوش مارے گا۔

 ( مسند احمد بن حنبل عن ابی سعید الخدری المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۵۰)

( صحیح البخاری کتاب مناقب الانصارباب قصہ ابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۴۸)

عمدۃ القاری وارشاد الساری شروح صحیح بخاری و مواہب الدنیا وغیرہا میں امام سہیلی سے منقول :

الحکمۃ فیہ ان اباطالب کان تابعا لرسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لجملتہ الا انہ استمرثابت القدم علٰی دین قومہ فسلط العذاب علٰی قدمیہ خاصۃ لتثبیتہ ایا ھما علی دین قومہ

یعنی ابو طالب کے پاؤں تک آگ رہنے میں حکمت یہ ہے کہ اللہ عزوجل جزا ہمشکل عمل دیتا ہے ابوطالب کا سارا بدن حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حمایت میں صرف رہا، ملتِ کفر پر ثابت قدمی نے پاؤں پر عذاب مسلط کیا۔

 ( عمدۃ القادری شرح صحیح البخاری مناقب الانصار باب قصہ ابی طالب حدیث ۳۸۸۵ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۷ /۲۴)

(ارشاد الساری بحوالہ السہیلی تحت الحدیث ۳۸۸۵ ، ۸ /۳۵۱ والمواہب اللدنیہ بحوالہ السہیلی ۱ /۲۶۴)
طبرانی حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی :
ان الحارث بن ہشام اتی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یوم حجۃ الوداع فقال یارسول اﷲ انی کنت علی صلۃ الرحم والاحسان الی الجاروایواء الیتیم واطعام الضیف واطعام المسکین وکل ھذا قدن کا یفعلہ ھشام بن المغیرۃ فماظنک بہ یارسول اﷲ فقال رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کل قبر ای لایشہد صاحبہ ان لا الہٰ الا اﷲ فہوجذوۃ من النار، وقدوجدت عمی اباطالب فی طمطام من النار فاخرجہ اﷲ لمکانہ منی واحسانہ الی فجعلہ فی ضحضاح من النّار

یعنی حارث بن ہشام رضی اللہ تعالٰی نے روز حجۃ الوداع حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی۔ یارسول اﷲ ! میں ان باتوں پر عمل کرتا ہوں۔
رشتہ داروں سے نیک سلوک ، ہمسایہ سے اچھا برتاؤ، یتیم کو جگہ دینا، مہمان کو مہمانی دینا، محتاج کو کھانا کھلانا اور میر اباپ ہشام یہ سب کام کرتا تھا تو حضور کا اس کی نسبت کیا گمان ہے ؟ فرمایا جو قبر بنے جس کا مردہ لاالٰہ الا اللہ نہ مانتا ہو وہ دوزخ کا انگارا ہے میں نے خود اپنے چچا ابوطالب کو سر سے اونچی آگ میں پایا ، میری قرابت و خدمت کے باعث اﷲ تعالٰی نے اُسے وہاں سے نکال کر پاؤں تک آگ میں کردیا۔

( المعجم الکبیر عن ام سلم حدیث ۹۷۲ المکتبۃ الفی صلیۃ بیروت ۲۳ /۴۰۵)

(المعجم الاوسط حدیث ۷۳۸۵ مکتبۃ المعارف ریاض ۸/ ۱۹۰)

مجمع نجار الانوار میں بعلامت کاف امام کرمانی شارح بخاری سے منقول :

نفع اباطالب اعمالہ ببرکتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وان کان اعمال الکفرۃ ھباء منثورا

یعنی نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی برکت سے ابوطالب کے اعمال نفع دے گئے ورنہ کافر وں کے کام تو نِرے برباد ہوتے ہیں۔

 ( مجمع بحار الانوار)

عمر بن شبہ کتاب مکہ میں اور ابویعلٰی وابوبشر اور سمویہ اپنے فوائد اور حاکم مستدرک میں بطریق محمد بن سلمہ بن ہشام بن حسان عن محمد بن سیرین قصہ اسلام ابی قحافہ والد امیر المومنین صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہما میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی :

  قال فلما مدیدہ یبایعہ بکی ابوبکر فقال النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ما یبکیک قال لان تکون ید عمّک مکان یدہ ویسلم ویقراﷲ عینک احب الیّ من ان یکون 

یعنی جب حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنا دست انور ابوقحافہ سے بیعت اسلام لینے کے لیے بڑھایا ، صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ روئے، حضور پرُنورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : کیوں روتے ہو؟ عرض کی : ان کے ہاتھ کی جگہ آج حضور کےچچاکا ہاتھ ہوتا اور ان کے اسلام لانے سے اﷲ تعالٰی حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کی آنکھ ٹھنڈی کرتا تو مجھی اپنے باپ کے مسلمان ہونے سے زیادہ یہ بات عزیز تھی۔

( الاصابۃ فی تمییز الصحابۃبحوالہ عمر بن شیبہ وغیرہ ذکر ابی طالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۶)

 ابوقرہ موسٰی بن طارق وہ موسٰی بن عبید ہ وہ عبداﷲ بن دینار وحضور عبدا ﷲ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی :

قال جاء ابوبکر یابی قحافۃ یقودہ یوم فتح مکۃ فقال رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الا ترک الشیخ حتی نأتیہ قال ابوبکر ادرت ان یأجرہ اﷲ والذی بعثک بالحق لانا کنت اشد فرحا باسلام ابی طالب لوکان اسلم منی بابی

یعنی صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ فتح مکہ کے دن ابو قحافہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے خدمت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر لائے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا اس بوڑھے کو وہیں کیوں نہ رہنے دیا کہ ہم خود اس کے پاس تشریف فرما ہوتے،صدیق نے عرض کی کہ میں نے چاہا کہ اُن کو اجر دے قسم اس کی جس نے حضور کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے اپنے باپ کے مسلمان ہونے سے زیادہ ابوطالب کے مسلمان ہونے کی خوشی ہوتی اگر وہ ا سلام لے آتے۔

 ( الاصابۃ فی تمییز الصحابۃبحوالہ ابی قرۃ وغیرہ ذکر ابی طالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۷)

یونس بن بکیر فی زیادات مغازی ابن اسحق عن یونس بن عمرو عن ابی السفر : قال بعث ابوطالب الی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فقال اطعمنی من عنب جنتک فقال ابوبکر ان اﷲ حرمھا علی الکافرین

یعنی ابو طالب نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کر بھیجی کہ مجھے اپنی جنت کے انگور کھلائے۔ اس پر صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : بے شک اﷲ نے انہیں کافروں پر حرام کیا ہے۔

 ( الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ بحوالہ ابن اسحاق ذکر ابی طالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۷)

ابونعیم حلیہ میں امیر المومنین مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم سے راوی، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :
 کانت مشیّۃ اﷲ عزوجل فی اسلام عمی العباس و مشیتی فی اسلام عمی ابی طالب فغلبت مشیۃ اﷲ مشیتی 

اﷲ تعالٰی نے میرے چچا عباس کا مسلمان ہونا چاہا اور میری خواہش یہ تھی کہ میرا چچا ابوطالب مسلمان ہو، اﷲ تعالٰی کا ارادہ میری خواہش پر غالب آیا کہ ابو طالب کا فر رہا اور عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ مشرف با سلام ہوئے ۔
فللّٰہ الحجۃ البالغۃ
 ( کنزالعمال برمز ابی نعیم عن علی حدیث ۳۴۴۳۹ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۵۲)

امام الائمہ، مالک الازمّہ ، کاشف الغمہ، سراج الائمہ ، سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فقہ اکبرمیں فرماتےہیں :

ابوطالب عمہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مات کافرا

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کی موت کُفر پر ہوئی۔ والعیاذباﷲ

( الفقہ الاکبر مع وصیّت نامہ ملک سراج الدین اینڈ سنز پبلشرز کشمیری بازار لاہور ص ۲۱)

امام برہان الدین علی بن ابی بکر فرغانی ہدایہ میں فرماتے ہیں :

اذا مات الکافر ولہ ولی مسلم فانہ یغسلہ ویکفنہ ویدفنہ بذلک امر علی رضی اللہ تعالٰی عنہ فی حق ابیہ ابی طالب لکن یغسل غسل الثوب النجس ویلف فی خرقۃ و یحفر حفیرۃ من غیر مراعاۃ سنۃ التکفین واللحد ولایوضع فیہ بل یلقی

جب کافر مرجائے اور اس کا کوئی مسلمان رشتہ دار موجود ہو تو وہ اس کو غسل دے، کفن پہنائے اور دفن کرے، حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان کے باپ ابو طالب کے بارے میں ایسا ہی حکم دیا گیا ۔ لیکن اس کو غسل ایسے دیا جائے جیسے پلید کپڑے کو دھویا جاتا ہے اور کسی کپڑے میں لپیٹ دیا جائے اور اس کے لیے گڑھا کھودا جائے، کفن پہنانے اور لحد بنانے کی سنت ملحوظ نہ رکھی جائے اور نہ ہی اس کو گڑھے میں رکھا جائے بلکہ پھینکا جائے۔

 ( الہدایہ باب الجنائز فصل فی الصلوۃ علی المیت المکتبۃ العربیۃ دستگیر کالونی کراچی ۱ /۶۲۔۱۶۱)

امام ابوالبرکات عبداﷲ نسفی کافی شرح وافی میں فرماتے ہیں :
مات کافر یغسلہ ولیہ المسلم ویکفنہ ویدفنہ، والاصل فیہ انہ لما مات ابوطالب اتی علی رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وقال انّ عمّک الشیخ الضال قد مات فقال اغسلہ واکفنہ وادفنہ و لاتحدث حدثا حتی تلقانی ای لاتصل علیہ

کافر مرجائے تو اس کا مسلمان رشتہ دار اس کو غسل دے، کفن پہنائے اور دفن کرے، اس میں اصل یہ ہے کہ جب ابوطالب مرگئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کا بوڑھا گمراہ چچا مرگیا ہے، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا اس کو غسل دو، کفن پہناؤ اور دفن کرو اور کوئی نئی چیز نہ کرنا یہاں تک کہ مجھے آملو یعنی اس کی نمازِ جنازہ مت پڑھنا الخ

علامہ ابراہیم حلبی غنیہ شرح منیہ میں فرماتے ہیں :
مات للمسلم قریب کافر لیس لہ ولی من الکفار یغسلہ غسل الثوب الجنس ویلفہ فی خرقۃ ویحفرلہ حفرۃ ویلفیہ فیہا من غیر مراعاۃ السنۃ فی ذلک لماروی ان اباطالب لما ھلک جاء علیّ فقال یارسول انّ عمّک الضال قدمات لخ

مسلمان کا کوئی قریبی کافر رشتہ دار مر گیا۔ اس کا کافروں میں کوئی وارث موجود نہیں ہے تو وہ مسلمان اُسے غسل دے جیسے پلید کپڑے کو دھویا جاتا ہے، ایک کپڑے میں لپیٹے اور ایک گڑھا کھود کر اس میں پھینک دے اور اس سلسلے میں سنت کا لحاظ نہ کرے کیونکہ مروی ہے کہ جب ابوطالب کا انتقال ہوا تو حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آکر کہا یارسول اﷲ ! آپ کا گمراہ چچا مرگیا ہے۔الخ

 ( غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی فصل فی الجنائز سہیل اکیڈمی لاہور ص ۶۰۳)

ان سب عبارتوں کا حاصل یہ ہےکہ مسلمان اپنے قرابت دار کا فر مردہ کو نہلاسکتا ہے کہ مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ، نے اپنے باپ ابوطالب کو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اجازت سے نہلایا۔

فتح القدیر وکفایہ وبنایہ وغیرہا تمام شروح ہدایہ میں اس مضمون کو مقبول و مقرر رکھا۔ کتبِ فقہ میں اس کی عبارات بکثرت ملیں گی سب کی نقل سے اطالت کی حاجت نہیں، واضح ہوا کہ سب علمائے کرام ابوطالب کو کافر جانتے ہیں۔

امام عارف باﷲ سیدّی علی متقی مکی قدس سرہ الملکی نے اپنی کتبِ جلیلہ منہج العمال وکنزالعمال و منتخب کنزالعمال میں ایک باب منعقد فرمایا :

الباب السادس فی اشخاص لیسوا من الصحابۃ

اُن شخصوں کے ذکر میں جوصحابی نہیں، اور اسی باب میں ابو طالب و ابوجہل وغیرہما ذکر کیا۔

(کنز العمال الباب السادس فی فضل اشخاص لیسوا من الصحابۃ موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۵۰)

اسی طرح علامہ عبدالرحمن بن شیبا نے تیسیرا الوصول الٰی جامع الاصول میں احادیث ذکر ابی طالب کو فصل غیر صحابہ میں وارد کیا اور اس میں صرف حدیث دوم و چہارم و پنجم کو جلوہ دیا۔ اگر ابوطالب کو اسلام نصیب ہوتا تو کیا وہ شخص صحابہ سے خارج ہوسکتا جس نے بچپن سے حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو گود میں پالا اور مرتے دم تک حضر و سفر کی ہمرکابی سے بہرہ یابی کا غلغلہ ڈالا۔

یونہی امام حافظ الحدیث ابوالفضل شہاب الدین ابن حجر عسقلانی نے کتاب اصابہ فی تمییز الصحابہ میں ابو طالب کو باب الکنی حرف الطاء المہملہ کی قسم رابع میں ذکر کیا۔ یعنی وہ لوگ جنہیں صحابی کہنا مردود ؤغلط و باطل ہے۔

اسی میں فرماتے ہیں :
ورد من عدۃ طرق فی حق من مات فی الفترۃ ومن ولد مجنونا ونحوذٰلک ان کلامنھم یدلی بحجۃ ویقول لوعقلت اوذکرت لآمنت فترفع لھم نار ویقال لھم ادخلوھا فمن دخلہا کانت علیھم بردًا وسلاماً ومن امتنع ادخلہا کرھا ونحن نرجو ان یدخل عبدالمطلب واٰل بیتہ فی جملۃ من یدخلہا طائعا فینجو، لکن وردفی ابی طالب ما یدفع ذلک وھو ما تقدم من اٰیۃ براء ۃ وما فی الصحیح انہ فی ضحضاح من النار، فھٰذ شان من مات علی الکفرفلوکان مات علی التوحید لنجامن النار اصلاو الاحادیث الصحیۃ والاخبار المتکاثرۃ طافحۃ بذلک اھ مختصراً۔

یعنی بہت اسانید سے حدیث آئی کہ جو زمانہ فترت میں اسلام آنے سے پہلے مرگیا یا مجنون پیدا ہوا اور جنون ہی میں گزر گیا اور اسی قسم کے لوگ جنہیں دعوتِ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام نہ پہنچی ان میں ہر ایک روزِ قیامت ایک عزر پیش کرے گا کہ الٰہی ! میں عقل رکھتا یا مجھے دعوت پہنچتی تو میں ایمان لاتا ، ان کے امتحان کو ایک آگ بلند کی جائے گی اور ارشاد ہوگا اس میں جاؤ جو حکم مانے گا اور اس میں داخل ہوگا وہ اس پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے گی ، اور جو نہ مانے گا جبراً آگ میں ڈالا جائے گا، اور ہمیں امید ہے کہ عبدالمطلب اور انکے گھر والے کہ قبل ظہورِ نور اسلام انتقال کرگئے وہ سب انہیں لوگوں میں ہوں گے جو اپنی خوشی سے اس امتحانی آگ میں جا کر نا جی ہوجائیں گے، مگر ابوطالب کے حق میں وہ وارد ہو لیا جو اسے دفع کرتا ہے ، سورہ توبہ شریف کی آیت اور حدیث صحیح کا ارشاد کہ وہ پاؤں تک کی آگ میں ہے۔ یہ حال اس کا ہے جو کافر مرے، اگر اخیر وقت اسلام لاکر مرنا ہوتا تو دوزخ سے نجات کُلی چاہیے تھی، صحیح وکثیر حدیثیں کفر ابی طالب ثابت کررہی ہیں۔ اھ مختصر۔

 (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء القسم الرابع ابوطالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۸)

امام قسطلانی مواہب میں فرماتے ہیں :

نحن نرجوان یدخل عبدالمطلب واٰل بیتہ الجنۃ الاابا طالب فانہ ادرک البعثۃ ولم یؤمن اھ باختصار۔

ہم امید کرتے ہیں کہ عبدالمطلب اور ان کے اہلبیت سب جنت میں جائیں گے سوا ابوطالب کے کہ زمانہ اسلام پایا اور اسلام نہ لائے۔

 ( المواھب اللدنیۃ قضیۃ نجاۃ والدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رای المصنف فی المسئلۃ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۸۳)

(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء ترجمہ ۶۸۵ ابوطالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۸)

نیز فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:

من عجائب الاتفاق ان الذین ادرکھم الاسلام من اعمام النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اربعۃ لم یسلم منھم اثنان واسلم اثنان وکان اسم من لم یسلم ینافی اسامی المسلمین وھما ابوطالب و اسمہ عبد مناف وابولھب و اسمہ عبدالعزّی بخلاف من اسلم وھما حمزۃ والعباس

عجائب اتفاق سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چار چچا زمانہ ئ اسلام میں زندہ تھے، دو اسلام نہ لائے اور دو مشرف باسلام ہوئے، وہ دو کے اسلام نہ لائے ان کے نام بھی پہلے ہی سے مسلمانوں کے نام کے خلاف تھے۔ ابو طالب کا نام عبدمناف تھا اور ابولہب کا عبدالعزی ، اور دو کہ مسلمان ہوئے انکے نام پاک وصاف تھے حمزہ و عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔

 ( فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب المناقب باب قصہ ابی طالب مصطفٰی البابی مصر ۸ /۱۹۶)

(شرح الزرقانی علی المواہب الدنیۃ عام الحزن وفاۃ خدیجہ وابی طالب دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۹۶)

امام احمد بن محمد خطیب قسطلانی مواہب الدنیہ و منح محمدیہ میں فرماتے ہیں:

کان العباس اصغر اعمامہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولم یسلم منھم الا ھو وحمزۃ

عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سب میں چھوٹے چچا تھے ، حضور کے اعمام میں صرف یہ اور حضرت حمزہ مسلمان ہوئے و بس۔

 ( المواہب اللدنیۃ المقصد الثانی الفصل الرابعالمکتب الاسلامی بیروت ۲ /۱۱۱)

امام محی السنہ بغوی معالم شریف اول رکوع سورہ بقر میں زیر قولہ تعالٰی

ان الذین کفروا سواء علیہم ،

  پھر قاضی حسین بن محمد دیار بکری مالکی مکی کتاب الخمیس میں فرماتے ہیں، کفر چار قسم ہے کفر انکار و کفر حجود و کفر عناد و کفر نفاق، کفر انکار یہ کہ اﷲ عزوجل کو نہ دل سے جانے اور نہ زبان سے مانے مگر دل میں نہ جانے۔

وکفر العناد ان یعرف اﷲ بقلبہ ویعترف بلسانہ ولایدین بہ ککفر ابی طالب حیث یقول

ولقدعلمت بان دین محمد من خیرادیان البریۃ دینا

لولا الملامۃ اوحذار مسبۃ لوجدتنی سمحابذاک مبینا؂۔

یعنی کفر عنادیہ کہ اﷲ تعالٰی کو دل سے بھی جانے اور زبان سے بھی کہے مگر تسلیم و گریدگی سے باز رہے جیسے ابو طالب کا کفر کہ یہ شعر کہے۔

  واﷲ ! میں جانتا ہوں کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دین تمام جہان کے دین سے بہتر ہے، اگر ملامت یا طعنے سے بچنانہ ہوتا تو تُو مجھے دیکھتا کہ میں کیسی اہل دلی کے ساتھ صاف صاف اس دین کو قبول کرلیتا۔

 (۲؂تاریخ الخمیس وفاۃ ابی طالب موسسۃ شعبان بیروت ۱ /۳۰۱)

(معالم التنزیل تفسیر البغوی تحت الآیۃ ۲/ ۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1/ ۲۱)

امام ممدوح یہ چار وں قسمیں بیان کرکے فرماتے ہیں :

جمیع ھٰذہ الاصناف سواء فی ان من لقی اﷲ تعالٰی بواحد منھا لایغفرلہ

یہ سب قسمیں اس حکم میں یکسا ں ہیں کہ جو ان میں سے کسی قسم کا کفر کرکے اﷲ عزوجل سے ملے گا وہ کبھی اسے نہ بخشے گا۔

(معالم التنزیل تفسیرالبغوی تحت الآیۃ ۲/ ۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت۱/ ۲۱)

امام شہاب الدین ابوالعباس احمد بن ادریس قرآنی نے شرح التنقیح پھر امام قسطلانی نے مواہب میں کفار کی ایک قسم یوں بیان فرمائی :

  من اٰمن بظاہرہ وباطنہ وکفر بعدم الاذعان للفروع کما حکی عن ابی طالب انہ کان یقول انی لاعلم ان مایقولہ ابن اخی لحق ولو لا انی اخاف ان تعیرنی نساء قریش لا تبعتہ وفی شعرہ یقول
لقد علموا ان ابننا لامکذب یقیناً ولا یعزی لقول الاباطل
فھذا تصریح باللسان و اعتقاد بالجنان غیرانہ لم یذعن

یعنی ایک کافر وہ ہے جو قلب سے عارف زبان سے معترف ہو مگر اذعان نہ لائے جیسے ابو طالب سے مروی کہ بے شک میں یقیناً جانتا ہوں کہ جو کچھ میرے بھتیجے (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) فرماتے ہیں ضرور حق ہے اگر اس کا اندیشہ نہ ہوتا کہ قریش کی عورتیں مجھے عیب لگائیں گی تو ضرور میں اُن کا تابع ہوجاتااور اپنے ایک شعر میں کہا : ؂ خدا کی قسم کافران قریش خوب جانتے ہیں کہ ہمارے بیٹے (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) یقیناً سچے ہیں اور معاذ اﷲ کوئی کلمہ خلاف حق کہنا، ان کی طرف نسبت نہیں کیا جاتا۔ تو یہ زبان سے تصریح اور دل سے اعتقاد سب کچھ ہے مگر اذعان نہ ہوا۔

 (المواہب اللدنیہ عالم الحزن وفاۃ ابی طالب المکتب الاسلامی بیروت۱ /۲۶۵)

امام ابن اثیر جزری نہایہ ، پھر علامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں :

کفر عناد ھو ان یعرفہ بقلبہ ویعترف بلسانہ ولا یدین بہ کابی طالب

کفر عنادیہ ہے کہ دل سے پہچانے اور زبان سے اقرار کرے مگر تسلیم و انقیاد سے باز رہے جیسے ابو طالب۔

( شرح العلامۃالزرقانی علی المواھب اللدنیۃ وفاۃ خدیجہ و ابی طالب دارالمعرفۃ بیروت۱ /۲۹۵)

علامہ مجدد الدین فیروز آبادی سفر السعادۃ میں فرماتے ہیں :

چوں عمِ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابو طالب بیمار شد باوجود آنکہ مشرک بود او راعیادت فرمود و دعوتِ اسلام کرو ابو طالب قبول نہ کرو اھ ملخصاً

جب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چچا ابو طالب بیمار ہوگئے تو ان کے کافر ہونے کے باوجود حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی عیادت کی اور اسلام لانے کی دعوت دی جسے ابو طالب نے قبول نہ کیا۔

 (شرح سفر السعادت فصل در بیان عیادت بیماراں و نماز جنازہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲۴۹)

شیخ محقق مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں :

حدیث صحیح اثبات کردہ است برائے ابو طالب کفر را

حدیثِ صحیح نے کفرِ ابوطالب کو ثابت کردیا ہے۔

 ( مدارج النبوۃ وفات یافتن ابو طالب مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲ /۴۸)

پھر بعد ذکر احادیث فرمایا :
و در روضۃ الاحباب نیز اخبار موت ابوطالب برکفر آوردہ الخ
روضۃ الاحباب میں بھی ابو طالب کے کفر پر مرنے کی احادیث لائی گئی ہیں۔ الخ 

 ( مدارج النبوۃ وفات یافتن ابو طالب مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲ /۴۹)

نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض فصل الوجہ الخامس من وجوہ السب امام ابن حجر مکی سے نقل فرمایا :

  حدیث مسلم ان ابی وابا ک فی النار اراد بابیہ عمہ ابا طالب لان العرب تسمی العم ابا (ملخصاً)

حدیث مسلم میں کہ میرا اور تیرا باپ جہنم میں ہیں، باپ سے مراد آپ کے چچا ابو طالب ہیں کیونکہ عرب چچا کو باپ کہہ دیتے ہیں۔( ملخصاً) 

 ( نسیم الریاض کی شرح شفاءالقاضی عیاض فصل الوجہ خامس مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات الہند ۴ /۴۱۴)

یعنی عرب کی عادت ہے کہ باپ کو چچا کہتے ہیں، حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بھی اسی عادت پر اس حدیث میں اپنے چچا ابوطالب کو باپ کہہ کر فرمایا کہ وہ دوزخ میں ہے۔

علامہ عبدالرؤف منادی تییسر پھر علامہ علی بن احمد عزیزی سراج المنیر شروح جامع صغیر میں زیر حدیث ہشتم فرماتے ہیں :

ھٰذا یؤذن بموتہ علٰی کفرہ وھو الحق ووھم البعض

یعنی یہ حدیث بتاتی ہے کہ ابو طالب کی موت کفر پر ہوئی اور یہی حق ہے اور اس کا خلاف وہم ہے۔

 ( التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث اھون اھل النار عذابا الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض۱ /۳۸۴)

علامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں :

القول باسلام ابی طالب لایصح قالہ ابن عساکر وغیرہ

ابو طالب کا اسلام ماننا غلط ہے امام ابن عساکر وغیرہ نے اس کی صریح کی۔

( شرح الرزقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصدالثانی الفصل الرابع دارالمعرفۃ بیروت۳ /۲۸۶)

شرح مقاصد و شرح تحریر پھر ردالمحتار حاشیہ درمختار باب المرتدین میں ہے :

  المصر علی عدم الاقرار مع المطالبۃ بہ کافر وفاقا لکون ذلک من امارات عدم التصدیق ولہذا اطبقوا علٰی کفر ابی طالب 

جس سے اقرارِ اسلام کا مطالبہ کیا جائے اور وہ اقرار نہ کرنے پر اصرار رکھے بالاتفاق کافر ہے کہ یہ دل میں تصدیق نہ ہونے کی علامت ہے۔ اسی واسطے تمام علماء نے کفرِ ابی طالب پر اجماع کیا ہے۔

 ( ردالمحتار کتاب السیر باب المرتد دار احیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۲۸۳ و ۲۸۴)

مولانا علی قاری شرح شفا شریف میں فرماتے ہیں :

اذا امربھا وامتنع وابٰی عنہا کابی طالب فھو کافر بالاجماع۔

جسے شہادت کلمہ اسلام کا حکم دیا جائے اور وہ باز رہے اور ادائے شہادت سے انکار کرے جیسے ابو طالب، تو وہ بالا جماع کافر ہے۔

ابوطالب لم یؤمن عنداھل السنۃ

اہل سنت کے نزدیک ابوطالب مسلمان نہیں۔

 (مرقات المفاتیح شرح مشکٰوۃ المصابیح کتاب الفتن حدیث ۵۴۵۸ المکتبۃ الحبیبیۃ کوئٹہ ۹/ ۳۶۰ )

شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی شرح سفر السعادۃ میں فرماتے ہیں :

مشائخ حدیث وعلمائے سنت بریں اند کہ ایمان ابو طالب ثبوت نہ پذیر فتہ و در صحاح احادیث ست کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم در وقتِ وفات وے برسردے آمد و عرض اسلام کرد وے قبول نہ کرد

مشائخ حدیث اور علماءِ اہلسنت کا مؤقف یہ ہے کہ ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے،صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ ابو طالب کی وفات کے وقت رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اسکے پاس تشریف لائے اور سلام پیش فرمایا مگر اس نے قبول نہیں کیا۔

 (شرح سفر السعادۃ فصل دربیان عیادت بیماراں و نماز جنازہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲۴۹)

امام ابن حجر مکی افضل القرٰی القراء ام القرٰی میں ابو طالب کی بیت مروی صحیح بخاری کہ ہم نے شروع جواب میں ذکر کی لکھ کر فرماتے ہیں :

ھذا البیت من جملۃ قصیدۃ لہ فیھا مدح عجیب لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حتی اخذا الشیعۃ منھا القول باسلامہ

یہ بیت ابوطالب کے ایک قصیدہ کا ہے جس میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عجب نعت ہے، یہاں تک کہ رافضیوں نے اس سے ابوطالب کا مسلمان ہونا اخذ کرلیا۔

 ( افضل القرٰی القراء ام القرٰی تحت البیت ۴۵ المجمع الثقانی ابوظہبی۱ /۲۸۶)

پھر فرماتے ہیں :

صرائح الاحادیث المتفق علٰی صحتہا ترد ذٰلک

لیکن صاف اور روشن حدیثیں جن کی صحت پر اتفاق ہے اسلام ابوطالب کو رَد کررہی ہیں۔

 ( افضل القرٰی القراء ام القرٰی تحت البیت ۴۵ المجمع الثقانی ابوظہبی ۱ /۲۸۶)

زرقانی میں ہے :

الصحیح ان ابا طالب لم یسلم، و ذکر جمع من الرفضۃ انہ مات مسلما وتمسکواباشعار واخبار واھیۃ تکفل بردھافی الاصابۃ

صحیح یہ ہے کہ ابوطالب مسلمان نہ ہوئے ، رافضیوں کی ایک جماعت نے اُن کا اسلام پر مرنا مانا اور کچھ شعروں اور واہیات خبروں سے تمسک کیا جن کے رَد کا امام حافظ الشان نے اصابہ میں ذمہ لیا۔

 ( شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الثانی الفصل الرابع دارالمعرفتہ بیروت ۳ /۲۷۴)

نسیم فصل کیفیۃ الصلوۃ علیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم والتسلیم میں ہے :

ابو طالب توفی کافرا وادعاء بعض الشیعۃ انہ اسلم لا اصل لہ 

  ابوطالب کی موت کفر پر ہوئی اور بعض رافضیوں کا دعوٰی باطلہ کہ وہ اسلام لائے محض بے اصل ہے۔

 (؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات الہند ۳ /۴۸۴)

امام قسطلانی ارشاد الساری میں فرماتے ہیں :

قد کان ابوطالب یحوطہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و ینصرہ ویحبہ حبا طبعیا لاشرعیا فسبق القدرفیہ واستمر علی کفرہ وﷲ الحجۃ السامیۃ

یعنی ابو طالب نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نصرت و حمایت سب کچھ کی، طبعی محبت بہت کچھ رکھی۔ مگرشرعی محبت نہ تھی،آخر تقدیرِ الہٰی غالبآئی اور معاذ اﷲ کفر پر وفات پائی اور اﷲ ہی کے لیے ہے حجت بلند۔

 ( ارشاد الساری شرح صحیح البخاری کتاب المناقب باب قصّہ ابی طالب دارالکتاب العربی بیروت ۶ /۲۰۱)

https://archive.org/details/SharhaAlMatalibFiMubhasAbiTalibByAlaHazrat


Comments

Popular posts from this blog

حضرت ﻋﻼﻣﮧ ﺧﺎﺩﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ صاحب ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺣﯿﺮﺍﻥ

برلن (جرمنی) کی مسجد میں پہلی دفعہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دی گئی۔