حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
*شانِ یارِ غار بزبانِ حیدرِ کرار*
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے وصال کے بعد ہر شخص غم میں ڈوبا ہوا تھا ، آپ کے غسل و کفن کے بعد سیدنا علی کرّم اللہ تعالی وجہہ آپ کے گھر کے باہر تشریف لائے اور آپ کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا:
رَحِمَكَ اللّٰهُ أَبَا بَكْرٍ! كُنْتَ أَوَّلَ الْقَوْمِ إِسْلَامًا، وَأَخْلَصَهُمْ إِيمَانًا، وَأَشَدَّهُمْ يَقِينًا، وَأَخْوَفَهُمْ لِلّٰهِ، وَأَعْظَمَهُمْ غِنَاءً، وَأَحْوَطَهُمْ عَلٰى رَسُولِهٖ، وَأَحْدَبَهُمْ عَلَی الْإِسْلَامِ، وَآمَنَهُمْ عَلٰى أَصْحَابِهٖ، وَأَحْسَنَهُمْ صُحْبَةً، وَأَفْضَلَهُمْ مَنَاقِبَ، وَأَكْثَرَهُمْ سَوَابِقَ، وَأَرْفَعَهُمْ دَرَجَةً، وَأَقْرَبَهُمْ مِنْ رَسُولِهٖ، وَأَشْبَهَهُمْ بِهٖ هَدْيًا وَخُلُقًا وَسَمْتًا، وَأَوْثَقَهُمْ عِنْدَهٗ، وَأَشْرَفَهُمْ مَنْزِلَةً، وَأَكْرَمَهُمْ عَلَيْهِ، فَجَزَاكَ اللّٰہُ عَنِ الْإِسْلَامِ وَعَنْ رَسُولِهٖ وَعَنِ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا.
یعنی اے صدیق اکبر ! اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے، سب سے پہلے اِسلام آپ نے ہی قبول کیا، ایمان میں سب سے زیادہ مخلص بھی آپ ہی تھے، سب سے پختہ یقین بھی آپ ہی کو نصیب ہوا، تقوی میں سب سے اعلی درجہ پر بھی آپ ہی فائز تھے، سب سے زیادہ سخی بھی آپ ہی ٹھہرے، رسول اللہ ﷺ کے سب سے بڑے خدمت گزار بھی آپ ہی تھے، اسلام (کی خاطر مسلمانوں) پر سب سے زیادہ شفیق بھی آپ ہی تھے، اہلِ اسلام پر سب سے زیادہ امان والے بھی آپ تھے، رسول اللہ ﷺ کی صحبت و رفاقت کو بھی سب سے اچھا آپ نے نبھایا، بھلائیوں میں آگے بڑھنے کے سب سے زیادہ اِعزازات آپ نے ہی حاصل کیے، تمام امت میں افضل ترین درجہ بھی آپ ہی کا تھا، رسول اللہ ﷺ کے سب سے زیادہ قریبی دوست بھی آپ ہی تھے، نبی کریم ﷺ کے اخلاق اور سیرت کی سب سے زیادہ جھلک آپ میں نظر آتی تھی، رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ اعتماد آپ پر تھا، آپ ﷺ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ عزت و تکریم بھی آپ ہی کو نصیب ہوئی۔ اللہ تعالی آپ کو اسلام، اپنے رسول ﷺ اور تمام مسلمانوں کی طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے۔
سیدنا علی کرم اللہ تعالی وجہہ نے آپ کی تعریف میں کثیر کلمات کہے، جن کا قلیل حصہ مذکور ہوا۔ اِن تعریفی کلمات کو سُننے کے بعدصحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، اور وہ کہتے تھے:
صَدَقْتَ يَا ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ.
اے رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد! آپ نے سچ کہا ہے، وہ ایسے ہی تھے۔
(مسند البزاز، نوادر الاصول، معرفۃ الصحابہ، مجمع الزوائد)
حضرتِ سیدناجابر بن عبدﷲ رَضِیَ ﷲ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ہم رسولُﷲ صَلَّی ﷲتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت اقدس میں حاضر تھے، آپ نے ارشاد فرمایا:
" ابھی تم پر وہ شخص ظاہر ہوگا کہﷲتَعَالٰی نے میرے بعد اس کے علاوہ کسی کو افضل نہ بنایا اور اس کی شفاعت، شفاعتِ انبیاء کی مانند ہوگی۔"
راوی کہتے ہیں کہ ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَﷲعَنْہُ نظر آئے، دوعالم مالک و مختار، مکی مدنی سرکار صَلَّیﷲعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کھڑے ہوگئے اور سیدنا صدیقِ اکبر رَضِیَﷲعَنْہُ کو پیار کیا اور گلے لگا لیا۔ "
( ’’تاریخ بغداد‘‘ ، محمد بن عباس ابوبکرالقاص، الرقم: 1457 ٬ج 3 ، ص 340۔ )
رسولِ اکرم، نورِ مُجَسَّمٌ صَلَّی ﷲتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:
" میں نے ایک ترازو دیکھا جو آسمان سے لٹکایا گیا ، اس کے ایک پلڑے میں مجھے اور دوسرے پلڑے میں میری امت کو رکھا گیا تو میرا پلڑا بھاری ہو گیا۔ پھر ایک پلڑے میں میری امت اور دوسرے پلڑے میں ابوبکر صدیق کو رکھا گیا تو ابوبکر کا پلڑا بھاری ہوگیا"
( ’’مسندامام احمد‘‘،حدیث ابی امامة الباھلی ، الحدیث: 22295 ٬ج 8 ، ص 289-290۔ )
*محبتِ یارِ غار بزبانِ حیدرِ کرار*
سیدنا علی کرّم اللہ تعالی وجہَہٗ نے اپنے منظورِ نظر، صحابی رسول سیدنا ابوجُحیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کوفرمایا:
« يَا أَبَا جُحَيْفَةَ! لَا يَجْتَمِعُ حُبِّي وَبُغْضُ أَبِی بَكْرٍ وَعُمَرَ فِی قَلْبِ مُؤْمِن۔»
*اے ابوجُحیفہ! کسی مسلمان کے دل میں میری محبت اور ابوبکر وعمر کا بغض جمع نہیں ہوسکتے۔*
(المعجم الاوسط:3920)
*شانِ اَصدق الصاقین بزبانِ امام زین العابدین*
ایک شخص نے امام زین العابدین (شہزادۂ امام حسین) رضی اللہ تعالی عنہما کی خدمتِ انور میں حاضر ہوکر عرض کی:
مَا كَانَ مَنْزِلَةُ أَبِی بَكْرٍ وَعُمَرَ مِنْ النَّبِیِّ ﷺ
حضور سید عالم ﷺ کی بارگاہ میں ابو بکر و عمر کا مرتبہ کیا تھا؟
فرمایا: مَنْزِلَتُهُمَا السَّاعَةَ۔
جو مرتبہ اُن کا اب ہے، کہ حضور کے پہلو میں آرام کر رہے ہیں ۔ (مسند احمد:16709، فتاوی رضویہ 483/28)
محبوبِ ربِ عرش ہے اس سبز قبہ میں
پہلو میں جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے
*افضلیّتِ تاجدارِ صداقت بزبانِ پیکرِ شجاعت*
امام احمد اور امام طبرانی کی سندِ صحیح کے ساتھ ذکر کردہ روایت کا خلاصہ ہےکہ:
سیدنا علی کرّم اللہ تعالی وجہہٗ کے منظورِ نظر، صحابی رسول سیدنا ابوجُحیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا علی کرم اللہ تعالی وجہہ کے پاس اُن کے گھر میں حاضر ہوئے اور عرض کی:
اے رسول اللہ ﷺ کے بعد اُمت میں سب سے افضل!
آپ نے فرمایا:
*اے ابوجحیفہ! کیا میں تمہیں نبی کریم ﷺ کے بعد سب سے افضل شخص کے بارے میں بتاؤں؟*
میں نے عرض کی: جی ہاں!میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔
فرمایا:
أَفْضَلُ هٰذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَبَعْدَ أَبِي بَكْرٍ عُمَرُ
*نبی کریم ﷺ کے بعد اِس امت میں سب سے افضل ابوبکر ہیں، اور ابوبکر کے بعد عمر ہیں۔*
(مسند احمد:835، المعجم الاوسط: 1959)
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے وصال کے بعد ہر شخص غم میں ڈوبا ہوا تھا ، آپ کے غسل و کفن کے بعد سیدنا علی کرّم اللہ تعالی وجہہ آپ کے گھر کے باہر تشریف لائے اور آپ کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا:
رَحِمَكَ اللّٰهُ أَبَا بَكْرٍ! كُنْتَ أَوَّلَ الْقَوْمِ إِسْلَامًا، وَأَخْلَصَهُمْ إِيمَانًا، وَأَشَدَّهُمْ يَقِينًا، وَأَخْوَفَهُمْ لِلّٰهِ، وَأَعْظَمَهُمْ غِنَاءً، وَأَحْوَطَهُمْ عَلٰى رَسُولِهٖ، وَأَحْدَبَهُمْ عَلَی الْإِسْلَامِ، وَآمَنَهُمْ عَلٰى أَصْحَابِهٖ، وَأَحْسَنَهُمْ صُحْبَةً، وَأَفْضَلَهُمْ مَنَاقِبَ، وَأَكْثَرَهُمْ سَوَابِقَ، وَأَرْفَعَهُمْ دَرَجَةً، وَأَقْرَبَهُمْ مِنْ رَسُولِهٖ، وَأَشْبَهَهُمْ بِهٖ هَدْيًا وَخُلُقًا وَسَمْتًا، وَأَوْثَقَهُمْ عِنْدَهٗ، وَأَشْرَفَهُمْ مَنْزِلَةً، وَأَكْرَمَهُمْ عَلَيْهِ، فَجَزَاكَ اللّٰہُ عَنِ الْإِسْلَامِ وَعَنْ رَسُولِهٖ وَعَنِ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا.
یعنی اے صدیق اکبر ! اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے، سب سے پہلے اِسلام آپ نے ہی قبول کیا، ایمان میں سب سے زیادہ مخلص بھی آپ ہی تھے، سب سے پختہ یقین بھی آپ ہی کو نصیب ہوا، تقوی میں سب سے اعلی درجہ پر بھی آپ ہی فائز تھے، سب سے زیادہ سخی بھی آپ ہی ٹھہرے، رسول اللہ ﷺ کے سب سے بڑے خدمت گزار بھی آپ ہی تھے، اسلام (کی خاطر مسلمانوں) پر سب سے زیادہ شفیق بھی آپ ہی تھے، اہلِ اسلام پر سب سے زیادہ امان والے بھی آپ تھے، رسول اللہ ﷺ کی صحبت و رفاقت کو بھی سب سے اچھا آپ نے نبھایا، بھلائیوں میں آگے بڑھنے کے سب سے زیادہ اِعزازات آپ نے ہی حاصل کیے، تمام امت میں افضل ترین درجہ بھی آپ ہی کا تھا، رسول اللہ ﷺ کے سب سے زیادہ قریبی دوست بھی آپ ہی تھے، نبی کریم ﷺ کے اخلاق اور سیرت کی سب سے زیادہ جھلک آپ میں نظر آتی تھی، رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ اعتماد آپ پر تھا، آپ ﷺ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ عزت و تکریم بھی آپ ہی کو نصیب ہوئی۔ اللہ تعالی آپ کو اسلام، اپنے رسول ﷺ اور تمام مسلمانوں کی طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے۔
سیدنا علی کرم اللہ تعالی وجہہ نے آپ کی تعریف میں کثیر کلمات کہے، جن کا قلیل حصہ مذکور ہوا۔ اِن تعریفی کلمات کو سُننے کے بعدصحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، اور وہ کہتے تھے:
صَدَقْتَ يَا ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ.
اے رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد! آپ نے سچ کہا ہے، وہ ایسے ہی تھے۔
(مسند البزاز، نوادر الاصول، معرفۃ الصحابہ، مجمع الزوائد)
حضرتِ سیدناجابر بن عبدﷲ رَضِیَ ﷲ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ہم رسولُﷲ صَلَّی ﷲتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت اقدس میں حاضر تھے، آپ نے ارشاد فرمایا:
" ابھی تم پر وہ شخص ظاہر ہوگا کہﷲتَعَالٰی نے میرے بعد اس کے علاوہ کسی کو افضل نہ بنایا اور اس کی شفاعت، شفاعتِ انبیاء کی مانند ہوگی۔"
راوی کہتے ہیں کہ ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَﷲعَنْہُ نظر آئے، دوعالم مالک و مختار، مکی مدنی سرکار صَلَّیﷲعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کھڑے ہوگئے اور سیدنا صدیقِ اکبر رَضِیَﷲعَنْہُ کو پیار کیا اور گلے لگا لیا۔ "
( ’’تاریخ بغداد‘‘ ، محمد بن عباس ابوبکرالقاص، الرقم: 1457 ٬ج 3 ، ص 340۔ )
رسولِ اکرم، نورِ مُجَسَّمٌ صَلَّی ﷲتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:
" میں نے ایک ترازو دیکھا جو آسمان سے لٹکایا گیا ، اس کے ایک پلڑے میں مجھے اور دوسرے پلڑے میں میری امت کو رکھا گیا تو میرا پلڑا بھاری ہو گیا۔ پھر ایک پلڑے میں میری امت اور دوسرے پلڑے میں ابوبکر صدیق کو رکھا گیا تو ابوبکر کا پلڑا بھاری ہوگیا"
( ’’مسندامام احمد‘‘،حدیث ابی امامة الباھلی ، الحدیث: 22295 ٬ج 8 ، ص 289-290۔ )
*محبتِ یارِ غار بزبانِ حیدرِ کرار*
سیدنا علی کرّم اللہ تعالی وجہَہٗ نے اپنے منظورِ نظر، صحابی رسول سیدنا ابوجُحیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کوفرمایا:
« يَا أَبَا جُحَيْفَةَ! لَا يَجْتَمِعُ حُبِّي وَبُغْضُ أَبِی بَكْرٍ وَعُمَرَ فِی قَلْبِ مُؤْمِن۔»
*اے ابوجُحیفہ! کسی مسلمان کے دل میں میری محبت اور ابوبکر وعمر کا بغض جمع نہیں ہوسکتے۔*
(المعجم الاوسط:3920)
*شانِ اَصدق الصاقین بزبانِ امام زین العابدین*
ایک شخص نے امام زین العابدین (شہزادۂ امام حسین) رضی اللہ تعالی عنہما کی خدمتِ انور میں حاضر ہوکر عرض کی:
مَا كَانَ مَنْزِلَةُ أَبِی بَكْرٍ وَعُمَرَ مِنْ النَّبِیِّ ﷺ
حضور سید عالم ﷺ کی بارگاہ میں ابو بکر و عمر کا مرتبہ کیا تھا؟
فرمایا: مَنْزِلَتُهُمَا السَّاعَةَ۔
جو مرتبہ اُن کا اب ہے، کہ حضور کے پہلو میں آرام کر رہے ہیں ۔ (مسند احمد:16709، فتاوی رضویہ 483/28)
محبوبِ ربِ عرش ہے اس سبز قبہ میں
پہلو میں جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے
*افضلیّتِ تاجدارِ صداقت بزبانِ پیکرِ شجاعت*
امام احمد اور امام طبرانی کی سندِ صحیح کے ساتھ ذکر کردہ روایت کا خلاصہ ہےکہ:
سیدنا علی کرّم اللہ تعالی وجہہٗ کے منظورِ نظر، صحابی رسول سیدنا ابوجُحیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا علی کرم اللہ تعالی وجہہ کے پاس اُن کے گھر میں حاضر ہوئے اور عرض کی:
اے رسول اللہ ﷺ کے بعد اُمت میں سب سے افضل!
آپ نے فرمایا:
*اے ابوجحیفہ! کیا میں تمہیں نبی کریم ﷺ کے بعد سب سے افضل شخص کے بارے میں بتاؤں؟*
میں نے عرض کی: جی ہاں!میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔
فرمایا:
أَفْضَلُ هٰذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَبَعْدَ أَبِي بَكْرٍ عُمَرُ
*نبی کریم ﷺ کے بعد اِس امت میں سب سے افضل ابوبکر ہیں، اور ابوبکر کے بعد عمر ہیں۔*
(مسند احمد:835، المعجم الاوسط: 1959)
Comments
Post a Comment