تعویذات


اللہپاک نے انسان کو پیدا کیا اوراس کے ساتھ کئی ساری چیزوں کا تعلق جوڑا ، بیماری بھی انہیں میں سےایک ہے ۔ انسان جب بیمار ہوتا ہے تو بیماری سے شفاء حاصل کرنے کےلیے مختلف طریقوں کواپناتا ہے۔ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ قرآن و سنت کے مطابق تعویذات وغیرہ بھی ہیں ۔تعویذات ،تعویذ کی جمع ہےاور عربی میں اسے تَمِیْمَۃ کہتے ہیں۔زمانَۂ جاہلیت میں جب کسی کو کوئی نظر لگ جاتی تو اہل عرب اس پر کچھ پڑھ کردم کرتے جیسا کہ حضرت عوف بن مالک اَشْجَعی رَضِیَ اللہُ عَنْہفرماتے ہیں: ہم دور جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے تو ہم نے عرض کی یارسول اللہصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ارشاد فرمایا: اپنےمنتر مجھے سناؤ۔ ان میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ ان میں شرک نہ ہو۔(صحیح مسلم) بعض اوقات کچھ لکھ کر اس کے گلے میں لٹکا دیتے تھے اسے تَمِیْمَہ کہتے تھے ۔ہمارے معاشرہ میں جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس عمل سے فوائد حاصل کرتی نظر آتی ہے وہیں کچھ لوگ اس کو شرک و بدعت کہتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ آئیے قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی شرعی حیثیت جانتے ہیں ۔

قرآن و حدیث اور تعویذ:

تعویذات میں عموماً قرآن پاک کی آیات اور اللہ پاک کے اسماء لکھے ہوتے ہیں اور ان کو پڑھ کر دم کیا جاتا ہے۔لہٰذا تعویذات سے استفادہ کرنے والا قرآن سے شفاء طلب کرنے والا ہے اور یقیناً قرآن کریم میں شفاء ہے چنانچہاللہ پاک کا ارشاد ہے:

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز

(پ15، بنی اسرائیل:82) جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔

یہی مضمون احادیث میں بھی موجود ہے چنانچہ حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہرسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَوَسَلَّم نے فرمایا: خیر ُالدواءِ القُرْآن ُ یعنی قرآن بہترین دواہے۔ (ابنِ ماجہ)

رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمْنے تعویذ لکھوایا:

حضرت ابو دُجانہرَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہےکہ میں نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی بارگاہ میں (جنات کی)شکایت کرتے ہوئے عرض کیا:یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم میں بستر پر لیٹا ہوا تھا کہ اچانک میں نے اپنے گھر میں ایک آواز سنی جو کہ چکی چلنے کی طرح تھی،ایک بھنبھناہٹ سنی جوشہد کی مکھیوں کی مثل تھی اور بجلی کی چمک جیسی چمک دیکھی ،میں نے گھبراکرسراٹھا کر دیکھا تو ایک سیاہ سایہ تھا جو کہ گھر کے صحن میں بلند ہوتا جارہا تھا،میں نے اس کے قریب جا کر اس کی کھال کو چھوا تو اس کی کھال ساہی(ایک کانٹے دار کھال والا جانور) کی کھال کی طرح تھی،پھر اس نے میرے چہرے پر آگ کے چنگاریوں کی مثل کوئی چیز پھینکی تو مجھے ایسے لگا گویا اس نے مجھے جلا کر رکھ دیا ہے (یاگھر کو جلاکر رکھ دیا ہے)۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اے ابو دُجَانَہ!وہ تیرے گھر میں ایک بری چیز رہنے والی ہےاور ربِّ کعبہ کی قسم اے اَبُوْ دُجَانَہ!تیری مثل لوگ تکلیف دئیے جاتے ہیں ، پھر فرمایا :ایک کاغذ اور دوات لا ،میں دونوں چیزیں لے کر حاضر ہوا تو سرکار اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ نے حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو دےکر فرمایا: اے ابوالحسن لکھو ! انہوں نے عرض کیا کہ کیا لکھوں ؟فرمایا یہ لکھو:بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰن ِالرَّحِیْم ھٰذَا کِتَابٌ مِّنْ مُّحَمَّدِِ رَّسُوْلِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اِلٰی مَنْ طَرَقَ الدَّارَمِّنَ الْعُمَّارِ وَالزُّوَارِوَالصَّالِحِیْنَ اِلَّا طَارِقاً یَّطْرُقُ بِخَیْرٍ یَّا رَحْمٰنُ اَمَّا بَعْدُ :فَاِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِیْ الْحَقِّ سَعَۃً ،فَاِنْ تَکُ عَاشِقاً مُوْلِعاً، فَاجِراً مُقْتَحِماً أَوْ رَاغِباً حَقّاً أَوْ مُبْطِلاً،ھٰذَا کِتَابُ اللہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی یَنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ ،اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخ ُ مَا کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُوْنَ مَاتَمْکُرُوْنَ، اُتْرُکُوْا صَاحِبَ کِتَابِیْ ھٰذَا وَانْطَلِقُوْا اِلٰی عَبْدَۃِ الْاَصْنَامِ وَاِلٰی مَنْ یَّزْعَم ُاَنَّ مَعَ اللہِ اِلٰہًا آخَر لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہ لَہُ الْحُکْمُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ یُغْلَبُوْنَ حٰم لَا یُنْصَرُوْنَ حٰم عسق، تُفَرَّقُ اَعْدَاءُ اللہ ِ،وَبَلَغَتْ حُجَّۃُ اللہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃ اِلَّا بِا اللہِ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللہُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔

حضرت اَبُوْ دُجَانَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں: میں اس کو لپیٹ کر گھر لے آیا اوررات کو اپنے سر کے نیچے رکھ کر سو گیا، پھر میں ایک چلانے والے کی چیخ سے اٹھا ،وہ کہہ رہا تھا کہ اے ابُو دُجَانَہ ! لَات و عُزّٰی کی قسم ان کلمات نے ہمیں جلا کر رکھ دیا ہے ،تیرے صاحب کی قسم جب تو اس تحریر کو ہم سے اٹھالے گا تو ہم نہ تو تیرے گھر لوٹ کر آئیں گے(ایک روایت میں ہے کہ نہ ہم تجھے ایذا دیں گے )اور نہ تیرے پڑوس میں کبھی آئیں گےاور نہ اس جگہ آئیں گے جہاں یہ کتاب (تعویذ ) ہوگی ۔ابُو دُجَانَہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا : میرے صاحب (یعنی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) کی قسم کہ میں اس کو اس وقت تک نہ اٹھاؤں گا جب تک نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے اجازت نہ مانگ لوں ۔اَبُوْ دُجَانَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں: جب میں نے جنوں کی آہ و بکاسنی تھی ، میرے لیے رات لمبی ہوگئی یہاں تک کہ صبح ہوئی تو میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی اور رات کو جنوں سے ہونے والامکالمہ بیان کیا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ نے فرمایا :اے اَبُوْ دُجَانَہ! اس قوم سے اس تعویذ کو اٹھا لو کیونکہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا!وہ قوم قیامت تک عذاب کی تکلیف میں مبتلارہے گی۔ (الخصائص الکبریٰ)

مشہورصحابی حضرتعبد اللہ بن عمررَضِیَ اللہُ عَنْہاورتعویذ:

حضرت امام احمد بن حنبل رَضِیَ اللہُ عَنْہ نقل فرماتے ہیں:حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عمر ورَضِیَ اللہُ عَنْہُاپنے بالغ بچوں کو سوتے وقت یہ کلمات پڑھنے کی تلقین فرماتے :بِسْمِ اللہِ اَعُوْذُبِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ غَضَبِہِ وَعِقَابِہِ وَشَرِّعِبَادِہِ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَحْضُرُوْنَ اور ان میں سے جو نابالغ ہوتے اور یاد نہ کرسکتے تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ مذکورہ کلمات لکھ کر ان کا تعویذ بچوں کے گلے میں ڈال دیتے۔ (مسند احمد)

مشہور تابعی سعید بن مسیب،ابن سیرین اور تعویذ:

حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : قرآنی تعویذ کو کسی ڈبیہ یا کاغذ میں لپیٹ کر لٹکانے میں کوئی حرج نہیں، امام ابن سیرین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ قرآن میں سے کچھ لکھ کر کسی انسان کے گلے میں لٹکایا جائے۔(البحر المحیط)

حضرت ابن عباسرَضِیَ اللہُ عَنْہکی طرف سے گھول کر پینےوالا تعویذ:

حضرتِ سیِّدُنا ابن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں :جب عورت پر بچے کی پیدائش مشکل ہوتو ایک کاغذ پر یہ دو آیات اور کلمات لکھے جائیں ، بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَ رَبِّ الْاَرْضِ وَ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم کَاَنَّھُمْ یَوْمَ یَرَوْنَھَا لَمْ یَلْبَثُوْا اِلَّا عَشِیَّۃً اَوْ ضُحَاھَا کَاَنّھُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَایُوْعَدُوْنَ لَمْ یَلْبَثُوْا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّھَارِ بَلَاغ فَھَلْ یُھْلَکُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُوْن ۔پھر اسے پانی میں گھول کر اس عورت کو پلادیا جائے۔(زاد المعاد لابن قیم،جلد 4،صفحہ 328)

کون سے دم اور تعویذ ناجائز اور کونسے جائز ہیں؟

مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب”بہار شریعت“میں لکھتے ہیں:بعض حدیثوں میں جو ممانعت آئی ہے اس سے مراد وہ تعویذ ہیں جو ناجائز الفاظ پر مشتمل ہوں، جو زمانہ جا ہلیت میں کئے جا تے تھے، اسی طرح تعویذات اور آیات و احادیث و اَدْعِیَّہ رِکابی(پیالہ) میں لکھ کر مریض کو بہ نیتِ شفاء پلانا بھی جا ئز ہے ۔جُنُب و حَائِض ونُفَسَاء بھی تعویذات کو گلے میں پہن سکتے ہیں ،بازوپرباندھ سکتے ہیں جبکہ تعویذات غلاف میں ہوں۔

شیخ عبد الحق محدث دہلویرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: جن منتروں میں جن و شیاطین کے نام نہ ہوں اور ان کےمعنی ٰ سے کفر لازم نہ آتا ہوتو ایسے منتروں کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔علمائے کرام نے فرمایاکہ جس منتر کا معنی معلوم نہ ہو اسے نہیں پڑھ سکتے لیکن جو شارع عَلَیْہِ السَّلَام سے صحیح طور پر منقول ہو اسے پڑھ سکتے ہیں اگر چہ اس کا معنی معلوم نہ ہو۔ (ماخوذازاشعۃاللمعات)

محترم قارئین!

آپ نے ملاحظہ کیا کہ دم اور تعویذات اگر قرآن و سنت کے مطابق ہوں تو ان سے علاج کرنا نہ صرف جائز بلکہ اسلاف سے ثابت ہے خود ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے حضرت ابو دجانہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کےلیے حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے تعویذ لکھوایا ، یونہی دیگر صحابہ کرام اوربزرگانِ دین رِضْوَانُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کا عمل رہا ہے۔ اللہ پاک قرآن وسنت کے فیض سے مالا مال فرمائے۔آمین


Comments

Popular posts from this blog

حضرت ﻋﻼﻣﮧ ﺧﺎﺩﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ صاحب ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺣﯿﺮﺍﻥ

برلن (جرمنی) کی مسجد میں پہلی دفعہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دی گئی۔