زقوم درخت کی تحقیق

اَذٰلِکَ خَیۡرٌ نُّزُلًا اَمۡ شَجَرَۃُ الزَّقُّوۡمِ
تو یہ مہمانی بھلی یا تھوہڑ کا پیڑ

شجرۃ الزقوم کی تحقیق -
اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالی نے اہل جنت کے جنت میں احوال اور ان کے کھانے پینے کی چیزوں کا ذکر فرمایا تھا اور ان آیات میں اہل دوزخ کے احوال اور ان کے کھانے پینے کی چیزوں کا ذکر فرمارہا ہے ‘ اور اس سے مقصود یہ ہے کہ آپ اہل مکہ کو ان کے اخروی انجام سے ڈرائیں تاکہ وہ اپنے کفر اور شرک سے باز آئیں۔-
الصفت : ٦٢ میں فرمایا : آیا یہ زیادہ اچھی مہمانی ہے یا تھوہر کا درخت ؟-
اس آیت میں نزل کا لفظ ہے ‘ نزل کا معنی ہے کسی چیز کا بلندی سے نیچے گرنا ‘ گھر آنے والے یعنی مہمان کو نازل کہا جاتا ہے اور مہمان کی ضیافت کے لیے جو کھانے پینے کی چیزیں پیش کی جاتی ہیں ان کو نزل کہتے ہیں ‘ قرآن مجید میں ہے :-
نزل من عند اللہ۔ (آل عمران : ١٩٨) یہ اللہ کی طرف سے مہمانی ہے -
اما الذین امنوا وعملوالصلحت فلھم جنت الماوی ز نزلا بما کانوا یعملون (السجدہ : ١٩)-
رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے تو ان کی رہائش کے لیے باغات ہیں یہ ان کے نیک کاموں کی جزاء کی مہمانی ہے۔ (المفردات ج ٢ ص ٦٣٢‘ مکتبہ نزار مصطفی الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)-
اور اس آیت میں شجرۃ الزقوم کا لفظ ہے اس کا معنی ہے تھوہر کا درخت ‘ یہ دوزخ میں سخت بد ذائقہ درخت ہے۔-
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر درخت زقوم کا ایک قطرہ بھی دنیاوالوں پر گرادیا جائے تو ان کی زندگی فاسد ہوجائے گی تو ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کا طعام ہی زقوم ہوگا۔-
(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٨٥‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٣٢٥‘ مسند احمد ج ١ ص ٣٠٠‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٤٧٠‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١٠٦٨‘ المستدرک ج ٢ ص ٢٩٤‘ البعث و النشور رقم الحدیث : ٥٤٣‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ٤٤٠٨)-
اس میں اختلاف ہے کہ شجرۃ الزقوم دنیا کے درختوں سے ہے یا نہیں اور اہل عرب اس کو پہچانتے تھے یا نہیں ؟ ایک قول یہ ہے کہ یہ دنیا کا معروف درخت ہے یہ سخت کڑوا اور بد ذائقہ ہوتا ہے۔ اسکو توڑ نے سے اس میں سے زہر یلا دودھ نکلتا ہے جو اگر جسم پر الگ جائے تو وہاں پر ورم آجاتا ہے ‘ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ دنیا میں معروف درخت نہیں ہے ‘ جب شجرۃ الزقوم کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی تو کفار قریش نے کہا ہم اس درخت کو نہیں پہچانتے ‘ ابنالزبعری نے کہا زقوم بربر والوں کی زبان میں مکھن اور کھجورکو کہتے ہیں ‘ ابو جہل لعنہ اللہ نے اپنی باندی سے کہا : میرے لیے مکھن اور کھجور لائو ‘ پھر اپنے اصحاب سے کہا لو اس کو کھائو ‘(سید نا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کو اس ڈراتے ہیں کہ یہ درخت دوزخ میں اگتا ہے حالانکہ آگ درخت کو جلا دیتی ہے اس نے آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا جس چیز سے (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ڈرار رہے ہیں وہ تو دراصل مکھن اور کھجور ہے۔-
الصفت : ٦٣ میں ہے : بیشک ہم نے اس کو فتنہ (عذاب) بنادیا ہے -
اس آیت میں فتنہ کا لفظ ہے اور ان پر اس درخت کی وجہ سے شدید عذاب ہونا یہی ان کے لیے فتنہ ہے۔-
الصفت : ٦٤ میں ہے : بیشک وہ ایسا درخت ہے جو دوزخ کی جڑ سے نکلتا ہے -
کفار وغیرہ نے یہ اعتراض کیا تھا کہ آگ تو درخت کو جلادیتی ہیں پھر دوزخ میں درخت کیسے ہوسکتا ہے ‘ اللہ تعالی نے اس اعتراض کے جواب میں یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ تعالی نے اس درخت کو پیدا ہی دوزخ کی جڑ میں کیا ہے چونکہ اس درخت کی اصل آگ ہے اس لیے یہ آگ میں ہی پھلا پھولا ہے ‘ اس کی نظیر یہ ہے کہ مچھلی پانی میں زندہ رہتی ہے اور پانی میں غرق نہیں ہوتی جب کہ دوسرے جاندار پانی میں غرق ہوجاتے ہیں اللہ تعالی مالک اور خالق ہے وہ چاہے تو پانی میں زندہ مخلوق پیدا کردے اور وہ چاہے تو آگ میں زندہ مخلوق پیدا کردے۔-
الصفت : ٦٥ میں ہے : اس کے شگوفے شیطانوں کے سروں کی طرح ہیں -
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ کفار نے شیطانوں کے سروں کو تو نہیں دیکھا تھا پھر شجرۃ الزقوم کے شگوفوں کو شیطانوں کے سروں سے تشبیہ دینے کا کیا فائدہ ہے ! اس کے حسب ذیل جوابات ہیں :-
(١) شیطانوں کے سروں کی بدہئیتی اور بد صورتی ان کے دلوں اور دماغوں میں جا گزین تھی ہرچند کہ انہوں نے شیطانوں کے سروں کو نہیں دیکھا تھا پھر بھی ان کے خیالوں میں وہ بہت بھیانک اور ڈرائونے تھے جیسے لوگ ان دیکھے غول بیابان سے ڈرتے ہیں اور بچے بھوتوں ‘ چڑیلوں اور ڈائنوں سے ڈرتے ہیں ‘ اور جس طرح لوگوں کے دماغوں میں یہ مرکوز ہے کہ پری بہت حسین ہوتی ہے اس لیے وہ کسی حسین لڑکی کو پری کہتے ہیں اگرچہ انہوں نے پری کو نہیں دیکھا یا جس طرح وہ کسی نیک آدمی کو فرشتہ کہتے ہیں اگرچہ انہوں نے فرشتہ کو نہیں دیکھا۔-
(٢) اس سے مراد سانپ کے سر ہیں اور عرب کے لوگ سانپ کے سر کو بہت دہشت ناک خیال کرتے تھے۔-
(٣) مقاتل نے کہا کہ مکہ اور یمن کے راستہ میں ڈرائو نے درخت ہیں جن کو عرب کے لوگ شیطان کے سر کہتے تھے۔-
الصفت : ٦٦ میں ہے : دوزخی ضرور اس درخت سے کھائیں گے سو اسی سے پیٹ بھریں گے -
دوزخی پیٹ بھر کر زقوم کے درخت سے کھائیں گے اس کی دو وجہیں ہیں ایک وجہ یہ ہے کہ ہرچند کہ وہ بہت کڑوا اور بہت بد ذائقہ ہوگا لیکن ان کو اس قدر شدید بھوک لگی ہوگی کہ وہ اپنی بھوک دور کرنے کے لیے اس درخت کے کڑوے کسیلے ‘ بد ذائقہ پھلوں کو بھی کھائیں گے جیسے کوئی شخص شدید بھوک کے عالم میں مردار بھی کھا لیتا ہے اور ایسی کئی گندی اور گھنائونی چیزیں کھالیتا ہے ‘ اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دوزخ کے فرشتے ان کو بجرا اس درخت کے پھل کھلائیں گے تاکہ ان کو زیادہ عذاب ہو۔-
الصفت : ٦٧ میں ہے : پھر بیشک ان کے لیے (پیپ) ملا ہوا گرم پانی ہوگا -
جب شجرۃ الزقوم کے پھل کھا کر ان پیٹ بھر جائے گا تو پھر ان و پیاس لگے گی ‘ تو اللہ تعالی نے ان کو پیاس دور کرنے کے لیے پیپ ملا ہوا گرم پانی مہیا کیا ‘ اس آیت میں شوبا من حمیم فرمایا ہے ‘ شوبا کے معنی ہیں کسی چیز سے ملا ہوا ‘ عام ازیں کہ وہ خون سے ملاہوا ہو ‘ یا پیپ سے ملاہوا ہو ‘ یا شجرۃ الزقوم سے ملاہوا ہو ‘ وہ پانی اس قدر سخت گرم ہوگا کہ ان کے پیٹوں کو جلا دے گا اور ان کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا ‘ یہ پانی ان کو کافی تاخیر سے پلایا جائے گا تاکہ ان کو مزید عذاب ہو ‘ پہلے اللہ تعالی نے ان کے کھانے کا عذاب ہونا بتایا اور اس آیت میں ان کے مشروب کا عذاب ہونا بتایا۔-
الصفت : ٦٨ میں ہے : پھر بیشک ان کا ضرور جحیم کی طرف لوٹنا ہوگا -
مقاتل نے کہا شجرۃ الزقوم سے ملے ہوئے گرم پانی کو پینے کے بعد پھر ان حجیم کی طرف لوٹنا ہوگا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ وہ گرم پانی پیتے وقت حجیم میں نہیں ہوں گے ‘ اس سے پتا چلا کہ گرم پانی کسی ایسی جگہ پر ہے جو عام دوزخ سے خارج ہے اور وہ دوزخ کا کوئی خاص مقام ہے ‘ جس طرح اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے کسی خاص مقام لے جاتے ہیں اسی طرح ان کو دوزخ میں پانی پلانے کے لیے دوزخ ہی کی کسی خاص جگہ پر لے جایا جائے گا۔-
الصفت : ٦٩ میں ہے : بیشک انہوں نے اپنے آبائو اجداد کو گم راہ پایا -
کفار کو جو شجرۃ الزقوم اور پیپ ملا ہوا گرم پانی کا عذاب دیا گیا اس کی وجہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے گم راہ آبائو اجداد کی اندھی تقلید کرتے تھے اور دلائل اور معجزات سے ان پر جو حق پیش کیا جاتا تھا اس کا انکار کرتے تھے۔-


Comments

Popular posts from this blog

حضرت ﻋﻼﻣﮧ ﺧﺎﺩﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ صاحب ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺣﯿﺮﺍﻥ

برلن (جرمنی) کی مسجد میں پہلی دفعہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دی گئی۔