حلالہ کی شرعی حیثیت

الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ
وعلیٰ آلک واصحابک یاحبیب اللہ

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

نکاح کا مقصد جہاں مرد و عورت کو گناہ سے بچانا ہے وہاں امت مسلمہ کو ایک اجتماعی اور معاشرتی زندگی کی نعمت سے بہرہ ور کرنا ہے۔ اس لئے نکاح کا دائمی ہونا ضروری ہے جو بچوں کی تعلیم و تربیت کا ایک بہترین ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ خاندانی جھگڑوں کے عذاب سے بھی محفوظ رکھتا ہے لہٰذا اشد ضرورت کے بغیر طلاق دینا جائز ہونے کے باوجود ناپسندیدہ ہے۔

سرکار دوعالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔۔
ابضغ الحلال الی اللّٰہ عزوجل الطلاق۔
(سننے ابی داؤد، باب فی کراہیۃ الطلاق)
اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں حلال کاموں میں سب سے زیادہ قابلِ نفرت کام طلاق ہے۔

اور اگر کسی ضرورت کے تحت طلاق دینا پڑ جائے تو ایک طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے حتیٰ کہ عورت کی عدت گزر جائے۔
یہ طلاق احسن یعنی سب سے عمدہ طریقے پر دی گئی طلاق کہلاتی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقہ مبارکہ بھی یہی تھا۔

حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں۔
کانوا یستحبون اَن یطلقھا واحدۃ ثم یترکھا حتی تحیض ثلث حیضٍ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، مایستحب من طلاق السنۃ وکیف ھو)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ عورت کو ایک طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے حتیٰ کہ اسے تین حیض آ جائیں۔

اور اگر دوسری طلاق دینا چاہے تو عدت کے اندر اندر جب عورت حیض سے پاک ہو جائے یعنی جس ظہر (پاکیزگی کی حالت) میں طلاق دی ہے اس کے بعد حیض گزار کر پاک ہو جائے تو دوسری طلاق دے دے۔ یہ طریقہ بھی سنت کے مطابق ہے۔

اب دو طلاقوں کے بعد بہتر صورت یہ ہے کہ مزید طلاق نہ دی جائے تاکہ اگر کسی وقت یہ دونوں مرد عورت دوبارہ اکٹھا ہونا چاہیں تو صرف نکاح کے ذریعے ایسا ممکن ہو سکے۔

قرآن پاک میں اسی بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:
الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اور تسریح باحسان
(البقرہ:229)
طلاق دو بار تک (دینا اچھا) ہے پھر اچھے طریقے سے روک لینا ہے یا بہترین طریقے سے چھوڑ دینا ہے۔

یعنی دو طلاقوں کے بعد یا تو عدت کے اندر اندر رجوع کر لے یا مزید طلاقیں نہ دے اور اسی طرح چھوڑ دے حتیٰ کہ اس کی عدت گزر جانے۔

اس کی مزید وضاحت یوں کی گئی ہے:
واذا طلقتم النساء فبلغن اجلهن فامسكوهن بمعروف او سرحوهن بمعروف ولاتمسكوهن ضرار لتعتدوا و من يفعل ذلك فقد ظلم نفسه (البقرہ:231)
اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت مکمل کرنے لگیں تو اچھے طریقے سے روک لو (رجوع کر لو) یا نیکی کے ساتھ ان کو چھوڑ دو اور نقصان پہنچانے کی خاطر ان کو نہ روکو کہ یہ حد سے زیادہ بڑھنا ہے اور جو اس طرح کرے گا اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا۔

سورہ بقرہ کی مندرجہ بالا دونوں آیتوں کو ملانے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دو طلاقوں کے بعد عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع ہو سکتا ہے۔ اگر دو طلاقوں سے تعداد بڑھ جائے یا عدت ختم ہو جائے تو اب رجوع نہیں ہو سکتا۔ (یعنی بیک وقت تین طلاقیں دی گئیں اگرچہ ایسا کرنا حرام ہے یا تین طہروں میں تین طلاقیں دی گئیں جو کہ جائز اور سنت کے مطابق طریقہ ہے تو ان دونوں صورتوں میں رجوع نہیں ہو سکتا۔)

دور جاہلیت میں ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لیتا تھا۔ اگر وہ ایک ہزار طلاق بھی دیتا تو اس کے لیے رجوع کا حق ثابت تھا۔ چنانچہ ایک عورت نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کی کہ اس کا خاوند اسے طلاق دیتا ہے اور پھر رجوع کر لیتا ہے اس طرح وہ تکلیف پہنچاتا ہے۔ ام المومنین نے یہ بات سرکار دوعالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کی تو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ طلاق دو بار تک ہے۔ (فخر الدین رازی، تفسیر کبیر 102/6)
 گویا اسلام نے دور جاہلیت میں عورت پر ڈھائے جانے والے اس ظلم کا خاتمہ کر کے رجوع کو دو طلاقوں تک محدود کر دیا۔ اگر دو طلاقیں رجعی دی ہوں تو عدت کے اندر اندر رجوع کر سکتا ہے اور جب طلاقوں کی تعداد تین تک پہنچ جائے، چاہے وہ تین طلاقیں اکٹھی دی ہوں یا الگ الگ کر کے تین کی تعداد مکمل کی ہو تو اب رجوع نہیں ہو سکتا۔ (جو لوگ تین طلاقوں کو ایک قرار دے رہے ہیں وہ دور جاہلیت کے اس طریقے پر عمل کر رہے ہیں اور یوں عورت پر ظلم کے مرتکب۔)

البتہ دوبارہ ان دونوں کا اکٹھا ہونا اسی صورت میں جائز ہو گا جب عورت کا دوسری جگہ نکاح ہو جائے اور وہ دوسرا شخص اسے مباشرت کے بعد طلاق دے دے۔

حلالہ

ارشاد خداوندی ہے:
فان طلقها فلا تحل له حتى تنكح زوجا غيره (البقرہ:230)
پس اگر وہ اسے تیسری طلاق بھی دے دے تو اس کے بعد وہ عورت اس (پہلے خاوند) کیلئے حلال نہ ہو گی جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے۔

قرآن پاک کی اس آیت میں جو عمل بتایا گیا ہے اسے حلالہ کہا جاتا ہے۔ گویا حلالہ یہ ہے کہ جب کوئی عورت تین طلاقوں کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے اور پھر وہ دوسرا شخص حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے اسے طلاق دے تو اب عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز ہو گا۔ چونکہ دوسرے خاوند کے نکاح میں آنا اور اس کا حقوق زوجیت ادا کرنا اس عورت کو پہلے خاوند کے لئے حلال کر دیتا ہے اس لیے اس عمل کو حلالہ یا تحلیل کہا جاتا ہے۔

اس سلسلہ میں حضرت امام رازی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کی تحقیقی بحث کا ذکر ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں، دو طلاقوں کے بعد خاوند عورت سے تین قسم کا سلوک کر سکتا ہے۔

پہلا: یہ کہ رجوع کرے اور قرآن پاک میں جو "امساک بمعروف" فرمایا گیا ہے اس سے یہی مراد ہے۔

دوسرا: یہ کہ رجوع نہ کرے اور نہ تیسری طلاق دے بلکہ اسی طرح چھوڑ دے حتیٰ کہ اس کی عدت پوری ہو جائے اور ان کے درمیان جدائی ہو جائے۔ "او تسریح باحسان" سے یہی مراد ہے۔

تیسرا: یہ کہ اسے تیسری طلاق دے دے۔ قرآن پاک کی آیت "فان طلقھا فلا تحل کی" سے یہی مراد ہے۔
(فخر الدین رازی، تفسیر کبیر: 111/6)

حلالہ میں یہ بھی شرط ہے کہ دوسرا خاوند جماع کرے اور طلاق دے ورنہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہو گی۔ یہ بات قرآن پاک سے بھی ثابت ہے اور احادیث مبارکہ سے بھی۔

حضرت امام فخرالدین رازی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، عربوں کے ہاں لفظ نکاح کا استعمال مختلف طریقوں پر ہوتا ہے۔ جب وہ کہتے ہیں"نکح فلان فلانۃ" فلاں مرد نے فلاں عورت سے نکاح کیا، تو یہاں وہ عقد نکاح مراد لیتے ہیں اور جب وہ کہتے ہیں" نکح (فلان) امراتہ او زوجتہ" فلاں نے اپنی بیوی سے نکاح کیا تو اس سے جماع مراد ہوتا ہے۔ (فخرالدین رازی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ، تفسیر کبیر: 112/6)

چونکہ اس آیت میں لفظ"زوج" اور لفظ "تنکح" دونوں وارد ہوئے ہیں اس لیے مندرجہ بالا ضابطہ کے مطابق لفظ "تنکح" سے مراد جماع ہو گا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت رفاعہ بن قرظی نے ایک خاتون (تمیمہ) سے نکاح کیا پھر اسے طلاق دے دی۔ اب اس خاتون نے دوسرے شخص (حضرت عبدالرحمان بن زبیر) سے نکاح کیا۔ پھر اس خاتون نے بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر شکایت کی کہ وہ (دوسرا خاوند) حقوق زوجیت ادا نہیں کر سکتے اور ان کے پاس کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے۔ آپ نے فرمایا: تم اس وقت تک پہلے خاوند سے نکاح نہیں کر سکتی جب تک تم اس خاوند کا ذائقہ اور وہ تمہارا ذائقہ نہ چکھ لے۔ (صحیح بخاری، باب اذا طلاقہا ثلاثا ثم تزوجت بعد العدۃ) گویا قرآن وسنت کی روشنی میں حلالہ اسی صورت میں ہو گا جب دوسرا خاوند حقوق زوجیت ادا کرے۔

حلالہ کی تین صورتیں:

پہلی صورت: جس عورت کو تین طلاقیں دی گئیں وہ عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے۔ پھر خاوند حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد جب چاہے اپنی مرضی سے طلاق دے۔ اب عدت گزرنے کے بعد اس عورت کا پہلے خاوند سے نکاح ہو جائے گویا یہاں حلالہ کیا نہیں جاتا بلکہ ہو جاتا ہے۔
حلالے کی اس صورت کا قرآن پاک میں ذکر ہے (جیسا کہ پیچھے گزر چکا) اس پر تمام آئمہ کرام کا اتفاق ہے کہ یہ صورت بلاکراہت جائز ہے۔ عورت کا دوسری جگہ نکاح کرنا بھی صحیح ہے اور جب وہ خاوند طلاق دے دے تو اب عدت گزارنے کے بعد وہ پہلے خاوند سے نکاح بھی کر سکتی ہے۔
یہ صورت چونکہ عقلاً نقلاً صحیح ہے اور قرآن وحدیث سے ثابت بھی ہے لہٰذا اسے بھی ناجائز یا بے حیائی کا باعث قرار دینا نہ صرف جہالت ہے بلکہ کھلم کھلا قرآن کی مخالفت ہے۔

دوسری صورت: جب خاوند نے طلاق دے دی اور عورت کی عدت بھی گزر گئی اب کوئی شخص اپنی مرضی سے اس سے نکاح کرتا ہے اور نکاح کے وقت حلالہ کی شرط بھی نہیں رکھی گئی یعنی یوں کہا گیا کہ تم حقوق زوجیت ادا کر کے اسے طلاق دے دینا کہ پہلے خاوند سے اس کا نکاح کیا جائے۔ البتہ دوسرے آدمی نے دل میں یہ نیت کی کہ چونکہ ان دونوں کے باہمی تعلقات اچھے تھے ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں لہٰذا اگر میں اس عورت سے نکاح کر لوں اور پھر اسے طلاق دے دوں تاکہ پہلا خاوند اس سے نکاح کر لے اور یوں وہ اجڑا ہوا گھر دوبارہ آباد ہو جائے تو اس صورت میں کیا حکم ہو گا؟ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

مالکی فقہ کے مطابق اس نیت سے کیا گیا نکاح فاسد ہو گا جماع کیا گیا یا نہیں دونوں صورتوں میں تفریق ضروری ہے۔
شافعی فقہ کے مطابق یہ نکاح صحیح ہو گا اگرچہ کچھ دوسری شرائط کا خیال رکھنا ہو گا لیکن محض اس نیت کی وجہ سے یہ نکاح فاسد نہیں ہو گا۔
حنبلی فقہ کے مطابق یہ نکاح باطل ہو جاتا ہے۔ ان کے نزدیک تحلیل یعنی حلالہ کی شرط اور نیت دونوں برابر ہیں۔
جب کہ فقہ حنفی کے مطابق یہ نکاح صحیح قرار پاتا ہے اگر کچھ دیگر شرائط کا خیال رکھا جائے۔

والحاصل ان التحلیل اذا سلم من ھذہ المحظورات و کان مقصودا بہ الصلح بین الرجل و مطلقتہ فانہ جائز ولصاحبہ اجرن الذی یصلح بین الزوجین و اما اذا کان لغرض من الاغراض السابقہ فانہ یکون مکروھا تحریما و یکون اثمہ علی کل من اشترک فیہ سوآء کان الزوج الثانی او المطلق او المرأۃ (عبدالرحمان الحریری الفقہ علی المذاہب الاربعۃ: 8/4)
خلاصہ یہ ہے کہ جب حلالہ ان ممنوعات سے محفوظ ہو اور مقصود اس مرد یعنی پہلے خاوند اور اس کی بیوی کے درمیان صلح کرانا ہو تو یہ جائز ہے اور ایسے شخص کو اس آدمی کی طرح ثواب ملے گا جو میاں بیوی کے درمیان صلح کراتا ہے لیکن جب کوئی دوسری غرض ہو (جو اغراض کتاب الفقہ میں اس عبارت سے پہلے بیان ہوئی ہیں) تو مکروہ تحریمی ہے اور اس عمل میں جو لوگ شریک ہوں گے وہ گناہ گار ہوں گے وہ دوسرا خاوند ہو یا طلاق دینے والا مرد یا عورت۔

اگر دوسرے شخص نے صرف اس نیت سے نکاح کرنے کے بعد طلاق دے دی کہ انکا گھر بس جائے تو یقیناً یہ کام باعث ثواب ہے گویا وہ شخص میاں بیوی کے درمیان صلح کرانا چاہتا ہے لیکن چونکہ تعلیم کے مطابق جب تک دوسری جگہ نکاح نہ ہو جائے وہ عورت دوبارہ پہلے خاوند کے نکاح میں نہیں آ سکتی اس لیے مجبوراً نکاح کرنا پڑا۔
البتہ اگر وہ اس نیت سے نکاح کرتا ہے کہ اپنی شہوت کو پورا کرے اور پھر طلاق دے دے تو ایسا کرنا مکروہ ہے اگرچہ نکاح بھی ہو جائے گا اور اب طلاق کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال بھی ہو جائے گی۔ علاوہ ازیں اگر وہ شخص لوگوں میں حلالہ کرنے والا مشہور ہے تو اگرچہ اب اس کی نیت صحیح بھی ہو اس کے لئے نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے اگرچہ نکاح ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر وہ اس نکاح پر اجرت مقرر کرتا ہے تو اس کا یہ عمل بھی حرام ہے اور حدیث پاک کی رو سے وہ لعنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم المحلل و المحلل لہ (جامع ترمذی، باب ما جاء فی المحال والمحل لہ 180) رسول اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔۔۔۔ اگرچہ نکاح اس صورت میں بھی ہو جائے گا لیکن یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص نر جانور اس مقصد کے لیے رکھتا ہے اور مادہ جانور کے مالک سے اس عمل کی اجرت وصول کرتا ہے تو یہ بھی حرام ہے۔ اسی طرح انسان جماع پر اجرت لے تو یہ بھی حرام ہے۔ (عبدالرحمان الحریری الفقہ علی المذاہب الاربعۃ: 79/4)

حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک یہ نکاح اس لیے درست قرار پاتا ہے کہ عقد نکاح میں کوئی ایسی بات نہیں پائی گئی جو نکاح کے انعقاد کے لیے رکاوٹ بنے اور چونکہ اس کی نیت بھی صحیح ہے لہٰذا وہ اجر و ثواب کا مستحق ہو گا۔

تیسری صورت: حلالہ کی تیسری صورت یہ ہے کہ جب اس مطلقہ سے نکاح کیا جائے تو یہ شرط رکھی جائے کہ دوسرا خاوند جماع کے بعد اسے طلاق دے گا تاکہ وہ عورت پہلے خاوند سے نکاح کر سکے۔ یہ طریقہ اختیار کرنا تمام آئمہ کرام کے نزدیک حرام ہے۔ کیونکہ سرکار دوعالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
لہٰذا اس سے قطع نظر کہ یہ نکاح ہو گیا اور اب طلاق کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہو گئی یا نہیں؟ یہ بات بہرحال قطعی ہے کہ اس شرط کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور جو لوگ اس میں شریک ہیں وہ سب لعنت کے مستحق ہیں اس لئے مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہیے لیکن اگر کوئی شخص اس طرح کر لیتا ہے تو کیا نکاح ہو جائے گا؟ کیا اب دوسرے خاوند پر اس شرط کی پابندی ضروری ہے؟ اور کیا دوسرے خاوند کے طلاق دینے کے بعد عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے گی؟
ہم اس سلسلے میں چاروں آئمہ کرام کا مسلک مع دلائل نقل کر کے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کے موقف کا ترجیحاً ذکر کریں گے۔

مالکی فقہ: حضرت امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ اور آپ کے مقلدین کے نزدیک تحلیل یعنی حلالہ کی شرط سے نکاح کیا جائے تو وہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نکاح کا مقصد ان دونوں کا ہمیشہ اکٹھے رہنا ہے اور یہی نکاح کی بنیادی شرط ہے چونکہ حلالہ کی شرط رکھنے سے یہ بنیادی شرط ختم ہو جاتی ہے لہٰذا یہ نکاح منعقد نہیں ہو گا اور نہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہو گی۔ (عبدالرحمان الحریری الفقہ علی المذاہب الاربعۃ: 4/80,81)

شافعی فقہ: حضرت امام شافعی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جب نکاح کرتے وقت تحلیل کی شرط رکھی جائے مثلاً وہ یوں کہے کہ میں نے فلاں عورت سے اس شرط پر نکاح کیا کہ وہ طلاق دینے والے (پہلے خاوند) کےلئے حلال ہو جائے یا یوں کہے کہ میں اس شرط پر نکاح کرتا ہوں کہ وطی کرنے کے بعد اسے طلاق ہو جائے گی یا جدا ہو جائے گی تو یہ نکاح باطل ہے۔ لہٰذا اب وہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہو گی، امام شافعی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اس قسم کی شرط سے نکاح فاسد ہو جاتا ہے اور حلالہ کے لئے نکاح صحیح ضروری ہے۔ لہٰذا عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہو گی۔

حنبلی فقہ: حنبلی فقہ کے مطابق دوسرے نکاح میں حلالہ کی نیت ہو یا واضح طور پر حلالہ کی شرط رکھی جائے، دونوں صورتوں میں نکاح باطل ہو جائے گا اور یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہو گی ان کی دلیل سنن ابن ماجہ کی یہ روایت ہے۔ نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آلا اخبرکم بالتیس المستعار، کیا میں تمہیں ادھار لئے ہوئے سانڈھ کی خبر نہ دوں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا ہاں کیوں نہیں ( آپ ہمیں بتائیں) آپ نے فرمایا: وہ محلل ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے محلل ( حلالہ کرنے والے) اور محلل کہ ( جس کے لئے حلالہ کیا گیا) دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (عبدالرحمان الحریری الفقہ علی المذاہب الاربعۃ: 4/80,81)

فقہ حنفی: تحلیل کی شرط پر کیا گیا نکاح حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک مکروہ ہے لیکن فاسد نہیں ہوتا اور اس کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جاتی ہے۔
واذا تزوجھا بشرط الثحلیل فالنکاح مکروہ لقولہ علیہ السلام لعن اللّٰہ المحلل والمحلل کہ وھذا ھو محملہ فان طلقھا بعد وطیھا حلت لوجود الدخول فی نکاح صحیح لا یبطل بالشرط
اور جب اس عورت سے تحلیل یعنی حلالہ کی شرط پر نکاح کرے تو یہ مکروہ ہے کیونکہ سرکار دوعالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور حدیث کا یہی مطلب ہے کہ ( نکاح مکروہ ہو نہ یہ کہ سرے سے منعقد ہی نہ ہو) پھر جب وہ جماع کے بعد طلاق دے تو اب وہ پہلے خاوند کے لئے حلال ہو گئی کیونکہ نکاح صحیح میں جماع پایا گیا جو کسی شرط کی وجہ سے باطل نہیں ہوتا (لہٰذا حلالہ کی شرط سے بھی باطل نہیں ہو گا)
حضرت امام ابویوسف رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک چونکہ نکاح مؤقت نکاح کی طرف ہے لہٰذا فاسد ہے اور اس فاسد کی وجہ سے یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہو گی جب کہ امام محمد رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہوتا ہے کیونکہ نکاح کسی شرط سے باطل نہیں ہوتا البتہ یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہو گی کیونکہ جس چیز کو شریعت نے موخر کیا تھا اس نے اس میں جلدی کی لہٰذا مقصود نکاح میں رکاوٹ کی وجہ سے اسے یہ سزا دی جائے گی جیسے کوئی شخص اپنے مورث (جس کا یہ وارث ہو) کو قتل کر دے تو وہ وراثت سے محروم ہو جاتا ہے کیونکہ وراثت حاصل کرنے میں اس نے جلدی کی ہے۔ (ہدایہ، فصل فی ما تحل بہ المطلقہ)
حضرت امام محمد رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ اس اعتبار سے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ سے متفق ہیں کہ یہ نکاح ہو جاتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک شرائط، نکاح کے انعقاد پر اثرانداز نہیں ہوتیں لیکن چونکہ نکاح ایک ایسا عمل ہے جو خاوند کی موت تک برقرار رہنا چاہیے اور یہاں پہلے ہی ختم کر دیا گیا لہذا پہلے خاوند کو یہ سزا دی جائے کہ وہ عورت اس کے لئے حلال نہ ہو۔

حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے دلائل:

چونکہ تین طلاقوں کے بعد مطلقہ عورت سے رجوع نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔ لہٰذا،
1: اب وہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں اور جب پہلے خاوند کے لئے فی الحال حلال نہیں تو کسی دوسری جگہ اس کا نکاح ہو سکتا ہے۔
2: دوسرا آدمی جو اس عورت سے نکاح کر رہا ہے وہ اس کے محارم میں سے بھی نہیں ہے اور عاقل و بالغ آدمی ہے جسے اپنی ذات پر ولایت حاصل ہے۔
3: نیز عورت خود اپنے نفس دلالت رکھتی ہے اب جب وہ خود نکاح کرے یا اس کا ولی نکاح کر کے دے دونوں صورتوں میں اسے اس نکاح کا حق حاصل ہے۔
4: فقہ حنفی کے مطابق نکاح میں کوئی شرط رکھی جائے تو اس شرط کا صحیح یا غلط ہونا اپنی جگہ پر ہے لیکن نکاح بہرحال صحیح قرار پاتا ہے۔
اب جب دوسرا خاوند اسے اپنی مرضی سے طلاق دے دیتا ہے اور اس سے پہلے وہ حقوق زوجیت ادا کر چکا ہے تو قرآن پاک کی درج ذیل آیت کے مطابق اس عورت کا پہلے خاوند سے نکاح جائز ہے۔
فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا ان ظنا ان یقیما حدود اللّٰہ وتلک حدود اللّٰہ یبینھا لقوم یعلمون (البقرہ: 203)
پس اگر وہ (دوسرا خاوند) اسے طلاق دے تو ان دونوں (پہلے خاوند اور عورت) پر کوئی حرج نہیں کہ وہ رجوع کریں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اللّٰہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ اللّٰہ کی حدیں ہیں جنہیں وہ علم والی قوم کے لئے بیان کرتا ہے۔
حضرت امام رازی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، اما قولہ (فان طلقھا) فالمعنی ان طلقھا الزوج الثانی الذی تزوجھا بعد الطلقہ الثالثۃ لانہ تعالیٰ قد ذکرہ بقولہ حتیٰ تنکح زوجا غیرہ (فخرالدین رازی، تفسیر کبیر: 113/6)
اللّٰہ تعالیٰ نے نکاح کا ذکر لفظ تراجع (رجوع) کے ساتھ کیا کیونکہ ان دونوں کے درمیان زوجیت پہلے سے حاصل ہے پس جب وہ نکاح کریں گے تو پہلے والی حالت یعنی نکاح کی طرف لوٹ آئیں گے لہذا یہ لغوی رجوع ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تحلیل کی شرط کے باوجود یہ نکاح اس لیے صحیح قرار پاتا ہے کہ آپ کے نزدیک کسی بھی شرط سے نکاح فاسد نہیں ہوتا اور نکاح کے ارکان ایجاب و قبول اور شرط یعنی گواہوں کا حاضر ہونا دونوں باتیں پائی گئی لہٰذا یہ نکاح صحیح قرار پایا۔

حدیث کا مفہوم:

اگر یوں کہا جائے کہ حدیث شریف میں حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت کی گئی ہے (جیسا کہ پہلے حدیث گزر چکی ہے) تو اس کے باوجود نکاح کیسے ہو گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث کی روشنی میں حلالہ کی شرط پر نکاح کا عمل حرام ٹھہرے گا یعنی نکاح ہو جائے گا اور یہ لوگ حرام کے مرتکب ہوں گے کیونکہ انہوں نے ایک شرعی حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس مثال یوں سمجھئے کہ جمعۃ المبارک کے دن آذان (پہلی اذان) کے بعد کاروبار چھوڑ کر نماز جمعہ کی تیاری کا حکم دیا گیا۔
ارشاد خداوندی ہے:
واذا نودی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللّٰہ وذرو البیع (الجمعہ: 63)
اور جب جمعۃ المبارک کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللّٰہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔
لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص دکان بند نہ کرے اور سودا بیچے تو خریدنے والا اس سودے کا مالک اور یہ اس رقم کا مالک ہو جائے گا جو بطور قیمت وصول کی ہے۔۔۔۔ گویا حرام ہونے کے باوجود سودا ہو جائے گا۔
اسی طرح حدیث شریف میں طلاق کو جائز امور میں سے سب سے زیادہ ناپسند قرار دیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ابغض الحلال الی اللّٰہ عزوجل الطلاق (سنن ابو داؤد)
اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک جائز کاموں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ کام طلاق ہے۔
لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ نافذ ہو جاتی ہے۔ دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:
ایما امرأۃ سالت زوجھا طلاقا فی غیر ما باس فحرام علیھا الجنۃ (جامع ترمذی)
جو عورت بلاوجہ اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
اس قدر تنبیہ کے باوجود جب کسی ضرورت کے بغیر عورت نے طلاق کا مطالبہ کیا اور خاوند نے طلاق دے دی تو وہ ہو جاتی ہے۔ غور کیجئے! لعنت کا معنی رحمت سے دوری ہے اور جنت کی خوشبو کا حرام ہونا بھی رحمت سے دوری ہے تو جب جنت کی خوشبو سے محرومی کے باوجود یہ طلاق صحیح قرار پاتی ہے تو لعنت کے باوجود وہ نکاح کیوں صحیح نہیں ہو گا۔ لہٰذا جس طرح عورت کو تنبیہ کی گئی کہ وہ بلاضرورت طلاق کا مطالبہ نہ کرے اسی طرح وہاں بھی تنبیہ کی گئی کہ حلالہ کی شرط پر نکاح نہ کرو۔ اس لیے محدثین کرام نے اس حدیث کا یہی مفہوم بیان کیا ہے کہ اس شرط پر نکاح کرنے والے لعنت کے مستحق اور گنہگار ہیں لیکن اس کے باوجود نکاح صحیح ہو جائے گا۔ جو لوگ اس نکاح کو صحیح قرار نہیں دیتے وہ اس طلاق کو بھی صحیح قرار نہ دیں جس کا مطالبہ عورت نے کسی ضرورت کے بغیر کیا ہے۔

خلاصہ:

1: جب عورت کو تین طلاقیں دی جائیں، چاہیں تینوں اکٹھی ہوں یا الگ الگ دی گئی ہوں، دونوں صورتوں میں رجوع نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ خاوند (حلالہ کے بغیر) اس عورت سے دوبارہ نکاح کر سکتا ہے۔
2: اگر اس عورت نے دوسری جگہ نکاح کر لیا اور پھر اس دوسرے خاوند نے حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے طلاق دے دی تو اب عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح جائز ہو گا۔ یہ عمل حلالہ کہلاتا ہے اور یہ سب کے نزدیک جائز ہے۔
3: اگر دوسرے خاوند نے اس نیت سے نکاح کیا کہ وہ بعد میں اسے طلاق دے دے گا تاکہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے اور ان کا گھر دوبارہ آباد ہو جائے لیکن نکاح میں حلالہ کی شرط نہیں رکھی گئی تو یہ صورت بھی جائز ہے بلکہ باعث اجر و ثواب ہے۔
4: اگر دوسرے خاوند سے نکاح اس شرط پر کیا جائے کہ وہ اسے بعد میں طلاق دے دے تاکہ پہلا خاوند اس عورت سے نکاح کر لے، تو حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر اللّٰہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور یہ عمل حرام ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہیے۔
5: تاہم اگر ایسا کر لیا گیا تو شرط باطل ہو جائے گی اور یہ نکاح صحیح ہو گا اور دوسرا خاوند اسے طلاق دینے کا پابند نہیں ہو گا البتہ اپنی مرضی سے طلاق دے دے تو عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے گی۔
6: بیک وقت تین طلاقیں دینا بدعت اور ناجائز عمل ہے لہذا اس سے بچنا چاہیے اور صرف ایک طلاق دی جائے یا ضروری ہو تو تین طہروں میں ایک ایک کر کے تین طلاقیں مکمل کی جائیں۔
7: اگر کوئی شخص بیک وقت تین طلاقیں دے دیتا ہے تو اگرچہ اس کا یہ عمل حرام ہے اور وہ گنہگار ہو گا لیکن تینوں طلاقیں نافذ ہو جائیں گی۔ انہیں ایک طلاق قرار دینا نہ صرف صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے طریقے سے روگردانی ہے بلکہ عورت پر ظلم ہے اور حرام کاری کا دروازہ کھولنا ہے۔

نوٹ: مندرجہ بالا تمام مواد حضرت علامہ مفتی محمد صدیق ہزاروی صاحب کی کتاب "تحقیق حلالہ" سے لیا گیا ہے


Comments

Popular posts from this blog

حضرت ﻋﻼﻣﮧ ﺧﺎﺩﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ صاحب ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺣﯿﺮﺍﻥ

:::::::::آپ کون سی خاتون پسند کرتے ہیں:::::::::::