اِبراہیم علیہ السلام کا سلام اُمّتِ محمدیہ کے نام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیثِ شریف : عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :" لقيت إِبْرَاهِيمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ ، أَقْرِئْ أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلامَ ، وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الْجَنَّةَ طَيِّبَةُ التُّرْبَةِ عَذْبَةُ الْمَاءِ ، وَأَنَّهَا قِيعَانٌ ، وَغِرَاسُهَا : سُبْحَانَ اللهِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ، وَلاَ إِلَهَ إِلَّااللهُ ، وَاللهُ أَكْبَرُ"
( سنن الترمذي : 3462، الدعوات – الطبراني الكبير :10363، 10/214 – الطبراني الأوسط:4182 ، 5/98 )
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " معراج کی شب میری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی ، انہوں نے مجھ سے کہا کہ اے محمد ! اپنی امت سے میرا سلام کہئے اور انہیں بتلائیے کہ جنّت کی مِٹّی بڑی زرخیز ہے اس کا پانی میٹھا ہے اور وہ بالکل برابر ہے اور یہ بھی بتلادیں کہ اس میں رپائی "سبحان اللہ ، والحمد للہ ولا الہ الا اللہ و اللہ اکبر " کی ہوتی ہے ۔
تشریح : شبِ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے ایسے امور کا مشاہدہ کرایا گیا جن میں ُامّت کے لئے بشارت کا سامان ہے ، لیکن اُمّت کے عمومی افراد کی یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے وہ ان بشارتوں سے مکمل طور سے غفلت میں ہیں ، انہیں شبِ معراج کا جش منانا تو یاد رہتا ہے لیکن ان بشارتوں پر عمل کی توفیق نہیں ہوتی ، یہ کتنی بڑی بشارت ہے کہ اس ُامّت پر نماز تو فرض پانچ وقت کی ہے لیکن اسے اجر پچاس فرضوں کا مل رہا ہے ، یہ کتنی عظیم نعمت و بشارت ہے کہ اس شب معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ بقرہ کی آخری آیتیں نصیب ہورہی ہیں کہ جو بندہ بھی اسے پڑھتا ہے اور جو سوال بھی کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے ضرور عطا کرتا ہے اور جس گھر میں تین دن تک لگاتار یہ آیتیں پڑھی جاتی ہیں شیطان اس گھر سے اپنا ڈیرہ اٹھا لیتا ہے ۔
یہ کس قدر عظیم بشارت ہے کہ اس شب اللہ تعالٰی یہ وعدہ کررہا ہے کہ اس امت کا کوئی فرد اگر باریِ تعالٰی کے ساتھ کچھ بھی شرک نہیں کرتا تو اس کے تمام کبائر معاف کئے جاسکتے ہیں ، یہ کس قدر عظیم نعمت ہے کہ اس معجز ہ نما سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر کچھ ایسے خوش قسمت لوگوں پر ہوتا ہے جو ایک ہی دن میں بیج ڈالنے کے لئے کھیت تیار کرتے ہیں ، اسی وقت اس میں بیج ڈالتے ہیں اور اسی لمحہ کھیتی تیار ہوجاتی ہے اور وہ لوگ اسی وقت کٹائی بھی کرکے غلہ اپنے گھر لے آتے ہیں اور جیسے ہی اس کھیتی کو کاٹ کر فارغ ہوتے ہیں ، وہ دوبارہ کاٹنے کےلائق ہوجاتی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال فرمایا تو اس سفر کے ساتھی حضرت جبریل علیہ سلام نے جواب دیا کہ یہ لوگ آپ کی اُمّت کے مجاہدین ہیں جن کی نیکیاں سات سو گنا تک بڑھائی جارہی ہیں ۔
انہیں عظیم بشارتوں میں سے ایک بشارت وہ بھی ہے جو زیر بحث حدیث میں مذکور ہے کہ ساتویں آسمان پراللہ کے دونوں خلیلوں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوتی ہے تو وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی عزیز ترین بیٹے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کی امت کو ایک قیمتی تحفہ دیتے ہیں اولاً تو شدّتِ محبت میں انہیں اپنے سلام کا تحفہ پیش کیا پھر جنّت میں لے جانے والے ایک بہت ہی آسان اور اجر ومعنی کے لحاظ سے بڑے عظیم عمل کی طرف ایک پرکشش اسلوب سے توجہ دلاتے ہیں کہ جنت کی مٹی بڑی زرخیر اور اس کا پانی بڑا میٹھا ہے ، اس میں جس چیز کی بھی کھیتی کی جائے وہ ضائع نہیں ہوتی ، نیز یہ بھی کہ جنت کی زمین بالکل برابر اور اس میں ریائی کے لئے ہر شخص کی جگہ خالی اور ہر ایک کے لئے کافی ہے ، اس لئے ہر وہ شخص جو جنّت کا خواہش مند ہے اسے چاہئے کہ اس میں کھیتی کرنے اور ریائی کرنے کا اہتمام کرے ، اور یہ بھی واضح رہے کہ جنّت کی کھیتی اور اس میں ریائی کوئی مُشکل اور شاق کام نہیں ہے بلکہ جنّت میں ریائی نیک اعمال کی ہوتی ہے ، انہیں نیک اعمال میں سے " سبحان اللہ والحمد للہ ، ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر " کا کثرتِ ذکر ہے ، کیونکہ یہ کلمات باقیات صالحات میں سے ہیں ، یہ کلمات اللہ تعالٰی کے نزدیک بڑے محبوب ہیں ، ان کلمات کا ورد کرنے والا کبھی نقصان اور گھاٹے میں نہیں رہتا ، سچ فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ "جس شخص نے سبحان اللہ العظیم و بحمدہ پڑھا اس کے لئے جنت میں ایک کھجور کا درخت گاڑدیا گیا ۔{ سنن الترمذی و الحاکم بروایت جابر بن عبد اللہ }
فوائد :
۱- امتِ محمدیہ کی فضیلت کہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر اس امت پر سلام پیش کرتے ہیں ۔
۲- آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملاقات کا ثبوت ۔
۳- کوئی چیز کسی مثال اور استعاروں سے بہتر سمجھی اور سمجھائی جاسکتی ہے ۔
۴- کسی چیز کے فوائد کا ذکر اس کی اہمیت کو بڑھاتا ہے ۔
Comments
Post a Comment