طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام
کفار مکہ نے شعب ابی طالب کے سنگدلانہ بائیکاٹ کا پروگرام اور طویل عرصہ تک اس پر سختی سے پابند رہنے کا اہتمام اس لئے کیا تھا کہ وہ اس طرح اسلام کی ترقی کے سامنے مضبوط بند باندھ دیں گےلیکن قدرت خداوندی کی شان ہی نرالی ہے۔ یہی چیز اسلام کی شہرت اور اس کی مقبولیت کا باعث بن گئی۔ جو لوگ حج، عمرہ، تجارت اور دیگر مقاصد کے لئے مکہ مکرمہ میں آتے تو انہیں اس بائیکاٹ کا پتہ چل جاتا۔ قدرتی طور پر ان کے دلوں میں اس کے اسباب جاننے کی خواہش پیدا ہوتی۔ اس طرح انہیں اس نئے دین کے بنیادی عقائد، انقلابی تعلیمات اور دلکش خصوصیات کا پتہ چلتا۔ نیز اس دین حق کے داعی اکمل کی دلنواز سیرت اور آلام و مصائب کے ہجوم میں اس کے معتقدین کی حیرت انگیز استقامات اور صبر کی داستانیں بھی سننے کاموقع ملتا۔ توفیق الہی جن کی دستگیری فرماتی۔ وہ تو اس دین کو قبول کرلیتے لیکن جو لوگ اس دین کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوتے وہ بھی اتنے متاثر ہوتے کہ جب وطن واپس جاتے تو اٹھتے بیٹھتے سب کے سامنے اس نئی دینی تحریک اور اس کے حیرت انگیز عقائد کا تذکرہ ضرور کرتے۔ اس طرح اسلام کی تشہیر کا کام خود بخود انجام پذیر ہونے لگا۔ مکہ میں باہر سے آنے والا ہر نووارد بڑی بےتابی سے اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔
اہل مکہ نے جب دیکھا کہ اسلام کی شہرت دور دراز علاقوں میں پہنچ رہی ہے اور لوگ اس میں دلچسپی لینے لگے ہیں تو انہوں نے حضور پر نورﷺکی ذات اور حضور کے دین متین کے خلاف غلط بیانی اور بہتان تراشیوں کی انتہاْ کردی۔ وہ حضور کو کبھی کاہن، کبھی شاعر، کبھی ساحر کہتے، ان کا اس سے مقصد یہ تھا کہ باہر سے آنے والے لوگ حضور علیہ التحیۃ والسلام سے متنفر ہو جائیں۔ نہ حضور کی بات سنیں۔ اور نہ حضور کی مجلس میں جاکر بیٹھیں۔ اگر کوئی اہم شخصیت مکہ میں وارد ہوتی تو اس کا اس طرح گھیرائو کر لیا جاتا کہ اس سے حضور کے قریب جانے کا موقعہ ہی نہ ملتا۔
اسی قسم کا واقعہ طفیل بن عمر الدوسی کے ساتھ پیش آیا۔
طفیل قبیلہ دوس کا سردار تھا اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے ساری قوم اس پر جان چھڑکتی تھی اس کے اشارہ ابرو پر وہ سب کچھ لٹانے کے لئے تیار ہو جاتی تھی۔ عقل مند اور معاملہ فہم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ قادر الکلام، نغر گو شاعر بھی تھا اس کے اشعار اور قصائد کو سن کر عرب کے فصحا و بلغا سر دھنتے تھے ایک دفعہ عمرہ ادا کرنے کے لئے وہ مکہ آیا قریش کو اس کی آمد کا علم ہوا تو قریش کے رئوسا نے اس کی خاطر مدارت کی حد کردی ہر وقت اس کے ساتھ چمٹے رہتے۔ اس کو حضورﷺ سے دور رکھنے کے لئے ہر تدبیر بروئے کارلاتے۔ طفیل خود بیان کرتے ہیں کہ ۔
میں جب مکہ پہنچا تو وہاں کے سرداروں نے مجھے نبی مکرمﷺ کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا۔ ناصح مشفق کے حیثیت سے انہوں نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا۔
یا طفیل انک قدمت بلادنا، وہذا الرجل الذی بین اظہرنا قد اعضل بنا، قد فرق جماعتنا، و شتت امرنا، وانما قولہ کالسحر یفرق بین الرجل وبین ابیہ و بین الرجل و بین اخیہ، و بین الرجل و بین زوجتہ، وانا نخشی علیک و علی قومت ما قد دخل علینا فلا تکلمہ و لا تسمعن منہ شیئا۔
ّّاے طفیل! تم ہمارے شہر میں تشریف لے آئے ہو ہمارے ہاں ایک شخص ہے جس نے ہمیں بڑی مصیبت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہمارے اتحاد کو اس نے پارہ پارہ کر دیا ہے۔ ہمارے حالات کو اس نے پراگندہ کر دیا ہے اس کی گفتگو میں جادو کا اثر ہے۔ اس نے بیٹے اور باپ کو، بھائی اور بھائی کو، خاوند اور بیوی کو جدا جدا کر دیا ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں تم اور تمہاری قوم بھی اس مصیبت میں مبتلا نہ ہو جائے جس کا ہم شکار ہیں اس لئے ہماری مخلصانہ گزارش ہے کہ اس کے ساتھ گفتگو نہ کرنا اور ہر گز اس کی بات نہ سننا۔ ٗٗ(السیرۃ النبویہﷺ ابن ہشام جلد اول صفحہ 407) ۔
طفیل کہتے ہیں کہ وہ لوگ بار بار مجھے یہی نصیحتیں کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی یہ بات میرے دل میں گھر کر گئی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ نہ میں ان کے پاس بیٹھوں گا اور نہ ان کی بات سنوں گا۔ حتی کہ جب میں مسجد حرام میں جانے لگتا تو اپنے کانون میں روئی ٹھونس لیتا کہ کہیں بے خبری میں ہی ان کی آواز میرے کانوں میں نہ پڑجائے۔
طفیل اپنا قصۃ بیان کرتے ہوئے خود بتاتے ہیں کہ ایک روز میں حرم شریف میں گیا وہاں اچانک میں نے دیکھا کہ حضور رحمت عالمﷺ کعبہ کے سامنے نماز ادا کر رہے ہیں میں نزدیک جا کر کھڑا ہو گیا اللہ تعالی نے چاہا کہ میری مرضی کے بغیر اس کے محبوب کی آواز میرے کانوں تک پہنچ گئی چنانچہ جب میں نے دل آویز کلام سنا تو میں نے اپنے آپ کو سرزنش کرتے ہوئے کہا۔
واثکل امی ! واللہ انی لرجل لبیب شاعر ما یخفی علی الحسن من القبیح۔ و ما یمنعنی ان اسمع من ہذا الرجل ما یقول فان کان الذی یاتی بہ حسنا قبلتہ وان کان قبیحا ترکتہ
میری بیان کے بچے مریں! بخدا میں ایک عقل مند آدمی ہوں اور شاعر بھی ہوں۔ اچھی اور بری بات کو اچھی طرح پہچانتا ہوں اس شخص کی بات سننے سے مجھے روکنے والا کون ہے اگر اس نے کوئی اچھی بات کہی تو قبول کر لوں گا اور اگر کوئی بری بات کہیں گے تو اسے مسترد کردوں گا۔
چنانچہ میں وہاں رک گیا۔ حضورﷺ نے نماز پڑھی اور اپنے گھر تشریف لے گئے۔ میں بھی پیچھے پیچھے چل پڑا۔ حضورﷺ گھر میں داخل ہوئے تو میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کی قوم نے مجھے آپ کے بارے میں یہ یہ باتیں بتائی ہیں۔ وہ مجھے حضورﷺ سے ڈراتے رہے۔ یہاں تک کہ اس خوف سے کہ آپ کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائے میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی۔ لیکن آج اچانک آپ کی آواز میرے کانوں میں پڑی ہے جو مجھے پسند آئی ہے۔ میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے اپنی دعوت کے بارے میں خود بتائیں تاکہ اس کے متعلق میں کچھ فیصلہ کر سکوں۔
طفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی مکرمﷺ نے مجھے اسلام کے بارے میں بتایا پھر قرآن کریم پڑھ کر سنایا۔
خدا کی قسم! اس سے زیادہ دلکش اور اثر آفرین کلام میں نے آج تک نہیں سنا تھا۔ اور نہ اس دین سے بہت کوئی اور دین میں جانتا تھا۔ میرے دل نے اس دعوت کی عظمت اور سچائی کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا۔ اسی وقت سرکار کے دست مبارک پر اسلام کی بیعت کی اور کلمہ شہادت پڑھ لیا۔
پھر میں نے عرض کی یا نبی اللہ! میں اپنی قوم کا سردار ہوں سب لوگ میری پیروی کرتے ہیں میں یہاں سے اب واپس ان کے پاس جا رہا ہوں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دوں گا حضورﷺ دعا فرمائیں اللہ تعالی مجھے کوئی نشانی عطا فرمائے جو تبلیغ کے اس کام میں میری معاون اور مددگار ثابت ہوں۔ حضورﷺ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور بارگاہ الہی میں عرض کی
اللـھم اجعل لہ آیۃ
”اے اللہ ! اس کو کوئی نشانی عطا فرمادے”
دولت ایمان اور نعمت یقین سے مالامال ہو کر میں مکہ سے روانہ ہوا جب اس اونچے ٹیلے پر پہنچا جس کے دامن میں میری قوم بستی تھی جہاں سے نیچے والے لوگ نظر آسکتے تھے رات کو وقت تھا اچانک میری آنکھوں کے درمیان سے نور چمکنے لگا جیسے کسی نے چراغ روشن کر دیا ہو۔ میں نے عرض کی یا اللہ! اس نور کو اس جگہ سے ہٹا کر کسی دوسری جگہ فرمادے۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ کہنے لگیں کہ اس نے اپنے بتوں کو چھوڑا ہے جس کی وجہ سے اس کے چہرے پر برص کا داغ ظاہر ہو گیا ہے اچانک وہ نور میری دونوں آنکھوں درمیان سے ہٹ کر میری سوٹی کے ایک کنارے پر جگمگانے لگا۔ جب میں نیچے اتر رہا تھا تو لوگ میرے قبیلے والے وہ روشنی دیکھ رہے تھے ۔ صبح سویرے میرے باپ جو کافی بوڑھے تھے مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں نے کہا ابا جی! آج سے میرا آپ کو تعلق ختم آپ تشریف لے جائیں۔
باپ نے پوچھا بیٹا! کیا بات ہے میں نے کہا میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور محمد مصطفیﷺ کی اطاعت قبول کر لی ہے باپ نے کہا جو دین تو نے قبول کیا ہے میں بھی اسی دین کو قبول کرتا ہوں میں نے کہا جائیے، غسل کیجئے، پاک کپڑے پہنئے پھر میرے پاس تشریف لائیے میں آپ کو اسلام کی تعلیم دوں گا جو مجھے دی گئے ہے میرے والد نے یہ تمام کام کئے اور کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گئے پھر میری بیوی میرے پاس آئی تو اس کے ساتھ بھی اسی قسم کی گفتگو ہوئی اس نے کہا کہ اگر ہم نے اپنے دیوتاؤں کو چھوڑدیا تو وہ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچوں کو نقصان نہ پہنچا دیں تو میں نے کہا کہ میں اس چیز کا ذمہ اپنے سر لیتا ہوں اسلام کی وجہ سے ہمیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
اس کے بعد میں نے اپنی باقی قوم کو دعوت دی تو انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا جس پر میں دوبارہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ میرا قبیلہ میری بات ماننے کے لئے تیا رنہیں ہوا تو حضورﷺ نے دوبارہ دعا فرمائی
اللھم اھد دوسا
”اے اللہ !قبیلہ دوس کو ہدایت عطا فرما ”
اور پھر مجھے ہدایت کی کہ
ارجع الی قومک فادعھم وارفق بھم
تم واپس چلے جاؤ انہیں تبلیغ کرو لیکن نرمی اور محبت سے انہیں اسلام کی طرف بلاؤ۔
حوالہ: ضیاء النبی ، جلد دوم ، مصنف پیر محمد کرم شاہ الازہری ، صفحہ نمبر 401 تا 406
Comments
Post a Comment