تصویر کا شرعی حکم/حیثیت
حضور سرور عالم صلی للہ تعالٰی علیہ وسلم نے ذی روح کی تصویر بنانا ،بنوانا، اعزازاً اپنے پاس رکھنا سب حرام فرمایا ہے اوراس پر سخت سخت وعیدیں ارشاد کیں اور ان کے دور کرنے مٹانے کاحکم دیا، احادیث اس بارے میں حد تواترپر ہیں، یہاں بعض مذکور ہوتی ہیں:
حدیث ۱: صحیحین ومسند امام محمد میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
کل مصور فی النار یجعل اﷲ لہ بکل صورۃ صورہ نفسا فتعذبہ فی جہنم ۱؎۔
ہر مصور جہنم میں ہے اللہ تعالٰی ہر تصویر کے بدلے جو اس نے بنائی تھی ایک مخلوق پیدا کرے گا کہ وہ جہنم میں اسے عذاب کرے گی۔
(۱؎ مشکوٰۃ المصابیح بحوالہ المتفق علیہ کتاب اللباس باب التصاویر مطبع مجتبائی دہلی ص۳۸۵)
(صحیح مسلم کتاب اللباس باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان الخ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۰۲)
(مسند احمد بن حنبل از مسند عبداللہ بن عباس المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۳۰۸)
حدیث ۲: انھیں میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ان اشد الناس عذابا یوم القیمۃ المصورون ۲؎۔
بیشک نہایت سخت عذاب روزقیامت تصویر بنانے والوں پرہے۔
(۲؎ صحیح البخاری کتاب اللباس باب التصاویر قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۸۰)
(صحیح مسلم کتاب اللباس باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۰۱)
حدیث ۳: انھیں میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
قال اﷲ تعالٰی ومن اظلم ممن ذھب یخلق خلقا کخلقی فلیخلقوا ذرۃ اولیخلقو احبۃ اولیخلقوا شعیرۃ ۳؎۔
اللہ عزوجل فرماتاہے اس سے بڑھ کر ظالم کون جو میرے بنائے ہوئے کی طرح بنانے چلے بھلا کوئی چیونٹی یا گیہوں یا جو کا دانہ توبنادیں۔
(۳؎ صحیح مسلم کتاب اللباس باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۰۲)
(صحیح بخاری کتاب اللباس باب التصاویر قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۸۰)
حدیث ۴: صحیحین وسنن نسائی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ان الذین یصنعون ہذہ الصور یعذبون یوم القیمۃ یقال لہم احیواما خلقتم ۱؎۔
بیشک یہ جو تصویریں بناتے ہیں قیامت کے دن عذاب کئے جائیں گے ان سے کہا جائے گایہ صورتیں جو تم نے بنائی تھیں ان میں جان ڈالو۔
(۱؎ صحیح البخاری کتاب اللباس باب عذاب المصورین یوم القیمۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۸۰)
(صحیح مسلم کتاب اللباس باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۰۱)
(سنن النسائی کتاب الزینۃ ذکر ما یکلف اصحاب الصور یوم القیامۃ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۲/ ۳۰۰)
حدیث ۵: مسند احمد وصحیحین وسنن نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من صور صورۃ فان اﷲ معذبہ حتی ینفخ فیہا الروح ولیس بنافخ ۲؎۔
جو کوئی تصویر بنائے تو بیشک اللہ تعالٰی اسے عذاب کرے گا یہاں تک کہ ا س میں روح پھونکے اور نہ پھونک سکے گا۔
(۲؎ صحیح البخاری کتاب البیوع باب بیع التصاویر قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۹۶)
(صحیح مسلم کتاب البیوع باب تحریم صورۃ الحیوان قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۰۲)
(مسند احمد بن حنبل عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۲۴۱ و ۲۴۶)
(سنن النسائی کتاب الزینۃ ذکر ما یکلف اصحاب الصور الخ نورمحمد کارخانہ کراچی ۲/ ۳۰۰)
حدیث ۶: مسند احمد وجامع ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یخرج عنق من النار یوم القیمۃ لہ عینان تبصران واذ نان تسمعان ولسان ینطق یقول انی وکلت بثلثۃ بکل جبار عنید وبکل من دعا مع اﷲ الھا اٰخروبالمصورین ۳؎۔
قیامت کے دن جہنم سے ایک گردن نکلے گی جس کے د وآنکھیں ہوں گی دیکھنے والی اور دو کان سننے والے اور ایک زبان کلام کرتی وہ کہے گی میں تین فرقوں پر مسلط کی گئی ہوں جو اللہ تعالٰی کا شریک بتائے اور ہر ظالم ہٹ دھرم اور تصویر بنانے والے ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
(۳؎ جامع الترمذی ابواب صفۃ جہنم باب ماجاء فی صفۃ النار امین کمپنی دہلی ۲/ ۸۱)
(مسند احمد بن حنبل از مسند ابی ہریرہ المکتب الاسلامی بیروت ۲/ ۳۳۶)
حدیث ۷: امام احمد مسند اور طبرانی معجم کبیر اور ابونعیم حلیۃ الاولیاء میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ان اشد اھل النار عذابا یوم القیمۃ من قتل نبیا او قتلہ نبی اوامام جائر وہولاء المصورون ولفظ احمد اشد الناس عذابا یوم القیمۃ رجل قتل نبیا اوقتلہ نبی او رجل یضل الناس بغیر علم او مصور یصور التماثیل ۱؎۔
بیشک روز قیامت سب دوزخیوں میں زیادہ سخت عذاب اس پر ہے جس نے کسی نبی کو شہید کیا یا کسی نبی نے جہاد میں اسے قتل کیا یا بادشاہ ظالم یا جو شخص بے علم حاصل کئے لوگوں کو بہکانے لگے اور ان تصویر بنانے والوں پر۔
(۱؎ المعجم الکبیر حدیث ۱۰۴۹۷ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۰/ ۲۶۰)
(حلیۃ الاولیاء ترجمہ ۲۵۳ خثیمہ بن عبدالرحمن دارالکتب العربی بیروت ۴/ ۱۲۲)
(مسند امام احمد بن حنبل از مسند عبداللہ بن مسعود المکتبہ الاسلامی بیروت ۱/ ۴۰۷)
حدیث ۸: بیہقی شعب الایمان میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ان اشد الناس عذابا یوم القیمۃ من قتل نبیا اوقتلہ نبی اوقتل احد والدیہ والمصورون وعالم لم ینتفع بعلمہ ۲؎۔
بیشک روز قیامت سب سے زیادہ سخت عذاب میں وہ ہے جو کسی نبی کو شہید کرے یا کوئی نبی اسے جہاد میں قتل فرمائے یا جو اپنے ماں باپ کو قتل کرے اور تصویر بنانے والے اور وہ عالم جو علم پڑھ کر گمراہ ہو۔
(۲؎ شعب الایمان حدیث ۷۸۸۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶/ ۱۹۷)
حدیث ۹: امام مالک وامام احمد وامام بخاری وامام مسلم ونسائی وابن ماجہ حضرت ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی:
قدم رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من سفر وقد سترت سہوۃ لی بقرام فیہ تمأثیل فلما راٰہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم تلون وجہہ وقال یا عائشۃ اشد الناس عذابا عنداﷲ یوم القیمۃ الذین یضاھؤن بخلق اﷲ ۱؎ وفی روایۃ للشیخین قام علی الباب فلم یدخل فعرفت فی وجہ الکراھیۃ فقلت یا رسول اﷲ اتوب الی اﷲ والی رسولہ فماذا اذنبت فقال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان اصحاب ہذہ الصور یعذبون یوم القیمۃ فیقال لھم احیوا ما خلقتم وقال ان البیت الذی فیہ الصور لا تدخلہ الملئکۃ۲؎ وفی اخری لہما تنا ول الستر فھتکہ وقال من اشد الناس عذابا یوم القیمۃ الذین یشبھون بخلق اﷲ ۳؎۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سفر سے تشریف فرما ہوئے تھے میں نے ایک کھڑکی پر تصویر دار پردہ لٹکایا ہوا تھا جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم واپس تشریف لائے اسے ملاحظہ فرماکر رنگ چہرہ انور کا بدل گیا اندر تشریف نہ لائے، ام المومنین فرماتی ہیں میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! میں اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف توبہ کرتی ہوں مجھ سے کیا خطا ہوئی ؟ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وہ پردہ اتارکر پھینک دیا اور فرمایا اے عائشہ! اللہ تعالٰی کے یہاں سخت تر عذاب روز قیامت ان مصوروں پرہے جو خدا کے بنائے ہوئے کی نقل کرتے ہیں ان پر روزقیامت عذاب ہوگا ان سے کہاجائے گا یہ جو تم نے بنایا ہے اس میں جان ڈالو جس گھر میں یہ تصویریں ہوتی ہیں اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔
(۱؎ صحیح البخاری ۲/ ۸۸۰ وصحیح مسلم ۲/ ۲۰۱ وسنن النسائی ۲/ ۳۰۰ ومسند احمد بن حنبل ۶/ ۸۳ و ۲۱۹)
(۲؎صحیح البخاری ۲/ ۸۸۱ وصحیح مسلم ۲/ ۲۰۱)
(۳؎ صحیح مسلم ۲/ ۲۰۰ وصحیح البخاری ۲/ ۸۸۰)
حدیث ۱۰: ابوداؤد وترمذی ونسائی وابن حبان حضرت ابویرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روای رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اتانی جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام فقال لی مربرأس التماثیل یقطع فتصیر کہیأۃ الشجرۃ و امر بالستر فلیقطع فلیجعل وسادتین منبوذتین توطأان ۴؎ ہذا مختصرا ۔
میرے پاس جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حاضر ہوکر عرض کی حضور ! مورتوں کے لئے حکم دیں کہ ان کے سر کاٹ دئے جائیں کہ پیڑ کی طرح رہ جائیں اورتصویر دار پردے کے لئے حکم فرمائیں کہ کاٹ کر دو مسندیں بنالی جائیں کہ زمین پرڈال کر پاؤں سے روندی جائیں۔ ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(۴؎ سنن ابی داؤد کتاب اللباس باب فی الصور آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۱۷)
(جامع الترمذی ابواب الادب باب ماجاء فی الملئکۃ لاتدخل بیتا الخ امین کمپنی کراچی ۲/ ۱۰۴)
حدیث ۱۱ تا ۱۴: صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر اور صحیح مسلم میں حضرت ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اورنیز اسی میں حضرت ام المومنین میمونہ اور مسند امام احمد میں بسند صحیح حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عرض کی:
انا لاندخل بیتا فیہ کلب وصورۃ ۱؎۔
ہم ملائکہ رحمت اس گھر میں نہیں جاتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔
(۱؎ صحیح البخاری، کتاب اللباس ۲/ ۸۸۱ وصحیح مسلم کتاب اللباس ۲/ ۱۹۹ و ۲۰۰)
حدیث ۱۵: احمد ونسائی وابن اماجہ وابن خزیمہ وسعید بن منصور حضرت امیر المومنین علی مرتضی کرم اللہ تعالٰی وجہہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل امین نے عرض کی:
انہا ثلث لم یلج ملک مادام فیہا واحد منہا کلب اوجنابۃ اوصورۃ روح ۲؎۔
تین چیزیں ہیں کہ جب تک ان میں سے ایک بھی گھرمیں ہوگی کوئی فرشتہ رحمت وبرکت کا اس گھر میں داخل نہ ہوگا کتا یا جنب یاجاندار کی تصویر۔
(۲؎ مسند احمد بن حنبل از مسند علی رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۸۵)
حدیث ۱۶ و ۱۷: مسند احمد وصحیح بخاری وصحیح مسلم وجامع الترمذی وسنن نسائی وابن ماجہ میں حضرت ابوطلحہ اور سنن ابی داؤد ونسائی وصحیح ابن حبان میں حضرت امیر المؤمنین مولی علی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ـ
لاتدخل الملئکۃ بیتا فیہ کلب ولاصورۃ ۳؎۔
رحمت کے فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔
(۳؎ صحیح البخاری کتاب بدء الخلق قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۵۸)
(صحیح مسلم کتاب اللباس باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۰۰)
(سنن ابی داؤد کتاب اللباس باب فی الصور آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۱۶)
(جامع الترمذی ابواب الادب باب ماجاء ان الملائکۃ لا تدخل بیتا امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۰۳)
(سنن النسائی کتاب الزینۃ التصاویر ۲/ ۲۹۹ و کتاب الطہارۃ ۱/ ۵۱)
حدیث ۱۸: نسائی وابن ماجہ وشاشی وابویعلی اور ابونعیم حلیہ اور ضیاء صحیح مختارہ میں امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ سے راوی:
صنعت طعاما فد عوت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فجاء فرأی تصاویر فرجع (زاد الاربعۃ الاخیرون) فقلت یا رسول اﷲ مارجعک بابی وامی قال ان فی البیت سترا فیہ تصاویر وان الملئکۃ لا تدخل بیتا فیہ تصاویر ۱؎۔
میں نے حضور پر نور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ کی دعوت کی حضور تشریف فرما ہوئے پردے پر کچھ تصویریں بنی دیکھیں، واپس تشریف لے گئے(آخر ی چار میں یہ اضافہ ہے) میں نے عرض کی یار سول اللہ میرے ماں باپ حضور پر نثار کس سبب سے حضور واپس ہوئے، فرمایا گھر میں ا یک پردے پر تصویریں تھیں اور ملائکہ رحمت اس گھر میں نہیں جاتے جس میں تصویریں ہوں۔
(۱؎ سنن النسائی کتاب الزینۃ التصاویر نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۲/ ۳۰۰)
(کنز العمال، بحوالہ الشاشی ع حل ص حدیث ۹۸۸۳ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۴/ ۱۳۱ و ۱۳۲)
حدیث ۱۹: صحیح بخاری وسنن ابی داؤد میں حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے:
ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یترک فی بیتہ شیئا فیہ تصالیب الا نقضہ ۲؎۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جس چیز میں تصویر ملاحظہ فرماتے اسے بے توڑے نہ چھوڑتے۔
(۲؎ صحیح البخاری، کتاب اللباس ۲/ ۸۸۰ وسنن ابی داؤد کتاب اللباس ۲/ ۲۱۶)
حدیث ۲۰: مسلم وابوداؤد وترمذی حبان بن حصین سے راوی:
قال لی علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ الا ابعثک علی مابعثنی علیہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان لاتدع صورۃ الاطمستہا و لاقبرا مشرفا الا سویتہ ۳؎۔ ورواہ ابویعلی ۴؎ و ابن جریر فلم یسمیا حبان انما قالا عن علی انہ دعا صاحب شرطتہ فقال لہ فذکرا بمعناہ۔
مجھ سے امیرالمومنین مولا علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ میں تمھیں اس کا م پرنہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مامورفرما کر بھیجا کہ جو تصویر دیکھو اسے مٹاد و اور جو قبر حد شرع سے زیادہ اونچی پاؤ اسے حد شرع کے برابر کردو (بلندی قبر میں حد شرع ایک بالشت ہے) (اس کو ابویعلٰی اور ابن جریر دونوں نے روایت کیا مگر ان دونوں نے حبان بن حصین کانام نہیں بلکہ یوں فرمایا کہ حضرت علی (کرم اللہ وجہہ) سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنے کو توال کو بلایا اور اس سے ارشاد فرمایا۔ آگے دونوں نے حدیث کا مفہوم ذکر فرمایا۔ (ت)
(۳؎ صحیح مسلم، کتاب الجنائز ۱/ ۳۱۲ وسنن ابی داؤد کتاب الجنائز باب تسویۃ القبر ۲/ ۱۰۳)
(جامع الترمذی، ابواب الجنائز باب ماجاء فی تسویۃ القبر امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۲۵)
(۴؎ مسند ابی یعلی حدیث ۳۳۸ مؤسسۃ الرسالہ علوم القرآن بیروت ۱/ ۱۹۹)
حدیث ۲۱: امام بسند جید امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک جنازے میں تھے حضور نے ارشاد فرمایا:
ایکم ینطلق الی المدینۃ فلا یدع بہا وثنا الاکسرہ ولا قبرا الاسواہ ولا صورۃ الا لطخہا۔
تم میں کون ایساہے مدینے جاکر ہر بت کو توڑ دے اور ہر قبر برابر کردے اور ہر تصویر مٹادے۔
ایک صاحب نے عرض کی: یا رسول اللہ۔ فرمایا: تو جاؤ۔ وہ جاکر واپس آئے اور عرض کی: یا رسول اللہ! میں نے سب بت توڑ دئے اورسب قبریں برابر کردیں اور سب تصویریں مٹا دیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
من عاد لصنعۃ شیئ من ہذا فقد کفر بما انزل علی محمد ۱؎۔
اب جو یہ سب چیزیں بنائے گا وہ کفروانکار کریگا اس چیز کے ساتھ جو محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) پر نازل ہوئی۔
والعیاذ باللہ رب العالمین
(اللہ تعالٰی کی پناہ جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا۔ ت)
(۱؎ مسند احمد بن حنبل از مسند علی رضی اﷲ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۸۷)
مسلمان بنظر ایمان دیکھے کہ صحیح وصریح حدیثوں میں اس پر کیسی سخت سخت وعیدیں فرمائی گئیں اوریہ تمام احادیث عام شامل محیط کامل ہیں جن میں اصلاً کسی تصویر کسی طریقے کی تخصیص نہیں تو معظمین دین کی تصویروں کو ان احکام خدا اوررسول سے خارج کرنا محض باطل و وہم عاطل ہے بلکہ شرع مطہر میں زیادہ شدت عذاب تصاویر کی تعظیم ہی پر ہے۔ اور خود ابتدائے بت پرستی انھیں تصویرات معظمین سے ہوئی، قرآن عظیم میں جو پانچ بتوں کا ذکر سورہ نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام میں فرمایا
ود، سواع، یغوث۔یعوق، نسر ۲؎
یہ پانچ بندگان صالحین تھے کہ لوگوں نے ان کے انتقال کے بعد باغوائے ابلیس لعین ان کی تصویریں بناکر ان کی مجلسوں میں قائم کیں، پھر بعد کی آنے والی نسلوں نے انھیں معبود سمجھ لیا۔
(۲؎ القرآن الکریم ۷۱/ ۲۳)
صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے:
ود و سواع ویغوث ویعوق ونسراسماء رجال صالحین من قوم نوح فلما ہلکوا اوحی الشیطن الی قومہم ان انصبوا الی مجالسہم التی کانوا یجلسون انصابا وسموہا باسماھم ففعلوا فلم تعبد حتی اذا ھلک اولئک وتنسخ العلم عبدت ۱؎ ہذا مختصرا۔
ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام ہیں جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالا کہ جہاں وہ بیٹھتے تھے وہاں ان کی مجالس میں ان کے بت نصب کرواور ان کے نام لیا کرو، تو وہ ایسا ہی کرنے لگے، پھر اس دور میں تو ان کی عبادت نہیں ہوئی مگر جب وہ لوگ ہلاک ہوگئے اور علم مٹ گیا سابق لوگوں کے بارے میں جہالت کا پردہ چھا گیا تو رفتہ رفتہ ان مجسموں کی عبادت وپرستش شروع ہوگئی، یہ حدیث کے مختصر الفاظ ہیں۔ (ت)
(۱؎ صحیح البخاری کتاب التفسیر باب ودّا و سواعا الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۷۳۲)
باایں ہمہ اگر وساوس و ہوا جس سے تسکین نہ پائیں تو احادیث صحیحہ صریحہ سے خاص تصاویر معظمین کاجزئیہ لیجئے۔
حدیث ۲۲: صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے:
انہ قال دخل النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم البیت فوجد فیہ صورۃ ابراہیم وصورۃ مریم علیہما الصلوٰۃ والسلام فقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم امالہم فقد سمعوا ان الملئکۃ لا تدخل بیتا فیہ صورۃ الحدیث ۲؎ ہذا لفظہ فی الانبیاء وفیہ ایضا ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لما رأی الصور فی البیت لم یدخل حتی امر بھا فمحیت الحدیث ۱؎ وفی المغازی فاخرج صورۃ ابراہیم واسمعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام ۲؎ الحدیث ہذہ کلہا روایات البخاری وذکر ابن ہشام فی سیرتہ قال وحدثنی بعض اہل العلم ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم دخل البیت یوم الفتح فرأی فیہ صور الملئکۃ وغیرھم فراٰی ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام مصورا فذکر الحدیث الی ان قال ثم امر بتلک الصور کلہا فطمست ۳؎۔
حضرت ابن عباس نے فرمایا: جب حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کعبہ شریف کے اندر تشریف لے گئے تو وہاں آپ نے حضرت ابراہیم اور سیدہ مریم علیہما الصلوٰۃ والسلام کی تصاویر پائیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آگاہ ہوجاؤ کہ آگاہ ہوجاؤ کہ تصویریں بنانے والوں نے بھی یہ بات سن رکھی تھی (یعنی ان کے کانوں تک بھی یہ بات پہنچی ہوئی تھی کہ )بیشک جس گھر میں تصویر ہو وہاں فرشتے نہیں آتے (الحدیث) یہ الفاظ حدیث کتاب الانبیاء میں آئے ہیں، اور اسی میں ہے ____ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کعبہ شریف میں تصویریں دیکھیں تو اندر داخل نہ ہوئے یہاں تک کہ ان کے متعلق حکم فرمایا تو وہ مٹادی گئیں الحدیث، اور مغازی میں ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام کی تصاویر باہر نکال دی گئیں الحدیث، یہ سب بخاری شریف کی روایات ہیں اور ابن ہشام نے اپنی سیرت میں بیان فرمایا کہ مجھ سے بعض اہل علم نے بیان کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فتح کے روز بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے تو وہاں فرشتوں وغیرہ کی تصاویر دیکھیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مجسمہ دیکھا، پھربقیہ حدیث ذکر فرمائی، یہاں تک کہ فرمایاپھر تمام تصاویر کے بارے میں حکم فرمایا کہ مٹادی جائیں تو وہ مٹادی گئیں (ت)
(۲؎صحیح البخاری، کتا ب الانبیاء، باب قول اللہ عزوجل واتخذ اللہ ابراہیم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۷۳)
(۱؎ صحیح البخاری، کتاب الانبیاء، قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۷۳)
(۲؎ صحیح البخاری، کتاب المغازی قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۶۱۴)
(۳؎ سیرۃ النبی لابن ہشام امر الرسول بطمس مابالبیت من صور دار ابن کثیر ۴/ ۳۲)
ان احادیث کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روز فتح مکہ کعبہ معظمہ کے اندر تشریف فرما ہوئے اس میں حضرت ابراہیم وحضرت اسمعیل وحضرت مریم وملائکہ کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام وغیرہم کی تصویریں نظر پڑیں کچھ پیکر دار کچھ نقش دیوار، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ویسے ہی پلٹ آئے اور فرمایا خبردار رہو بیشک ان بنانے والوں کے کان تک بھی یہ بات پہنچی ہوئی تھی کہ جس گھر میں کوئی تصویر ہو اس میں ملائکہ رحمت نہیں جاتے، پھر حکم فرمایا کہ جتنی تصویریں منقوش تھیں سب مٹادی گئیں اور جتنی مجسم تھیں سب باہر نکال دی گئیں انھیں بھی حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ وحضرت سیدنا اسمعیل ذبیح اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلی ابنیہما الاکرم وعلیہما وبارک وسلم کی تصویریں بھی باہر لائی گئیں جب تک کعبہ معظمہ سب تصاویر سے پاک نہ ہوگیا حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے قدم اکرم سے اسے شرف نہ بخشا۔
حدیث ۲۳: مسند امام احمد میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے:
قال کان فی الکعبۃ صور فامر النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عمر بن الخطاب ان یمحوھا فبل عمررضی اﷲ تعالٰی عنہ ثوبا ومحاھا بہ فد خلہا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وما فیہا منھا شیئ ۱؎۔ وفی حدیثہ عند الامام الواقدی وکان عمر قد ترک صورۃ ابراہیم فلما دخل صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم راھا فقال یاعمر الم آمرک ان لاتدع فیہا صورۃ ثم رای صورۃ مریم فقال امحواما فیہا من الصور قاتل اﷲ قوما یصورون ما لایخلقون ۲؎۔ ھذا مختصرا۔
حضرت جابر نے فرمایا ایام جاہلیت میں کعبہ شریفہ کے اندر تصویریں تھیں، حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم فرمایا کہ تصویری نقوش مٹادو، تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے گیلے کپڑے کے ساتھ ان نقوش کو مٹادیا اس کے بعد حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کعبہ شریف میں داخل ہوئے تو وہاں کوئی تصویر ی نقش موجود نہ تھا، اس سند میں امام واقدی کایہ اضافہ بھی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہاں حضرت ابراہیم علیہم السلام کی تصویر چھوڑ دی تھی یعنی اسے نہیں مٹایا تھا۔ پھر جب اندر تشریف لے جاکر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ سلم نے اسے دیکھا تو ارشاد فرمایا اے عمر! کیا میں نے تمھیں حکم نہ دیا تھا کہ یہاں کوئی تصویر باقی نہ رہنے دو، پھر آپ نے سیدہ مریم کی تصویر دیکھی تو فرمایا یہاں جتنی بھی تصویریں ہیں ان سب کو مٹا دیا جائے اللہ تعالٰی ایسے لوگوں کو برباد کرے جو ایسی چیزوں کی تصویریں بناتے ہیں جنھیں وہ پیدا نہیں کرسکتے۔
(۱؎ مسند احمد بن حنبل از مسندجابر رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۳۹۶)
(۲؎ کتاب المغازی للواقدی شان غزوۃ الفتح موسسۃ الاعلمی بیروت ۲/ ۸۳۴)
حدیث ۲۴: عمر بن شبہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:
ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم دخل الکعبۃ فامرنی فاتیتہ بماء فی دلو فجعل یبل الثوب ویضرب بہ علی الصور و یقول قاتل اﷲ قوما یصورون ما لایخلقون ۳؎۔
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کعبہ شریف میں داخل ہوئے تو مجھے حکم فرمایا تو میں پانی کا ڈول بھر کر لایا آپ خود بنفس نفیس اس پانی سے کپڑا ترکرنے لگے پھر ان تصویروں پر وہ بھیگا ہو اکپڑا رگڑتے ہوئے فرمانے لگے اللہ تعالٰی ایسے لوگوں کو ہلاک کرے جو ایسی چیزوں کی تصویر کشی کرتے ہیں جنھیں وہ پیدا نہیں کرسکتے۔ (ت)
(۳؎ فتح الباری بحوالہ عمر بن شبہ کتاب المغازی مصطفی البابی مصر ۹/ ۷۸)
(المصنف لابن ابی شیبۃ کتاب العقیقہ حدیث ۵۲۶۵ وکتاب المغازی حدیث ۱۸۷۵۶ ۸/ ۲۹۶ و۱۴/ ۴۹۰)
حدیث ۲۵: ابوبکر بن ابی شیبہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:
ان المسلمین تجردوا فی الازرواخذ وا الدلاء وارتجزوا علی زمزم یغسلون الکعبۃ ظہرھا وبطنہا فلم یدعوا اثر امن المشرکین الا محوہ اوغسلوہ ۱؎۔
( اس وقت) مسلمانوں نے اپنی اپنی چادریں اتاریں اور ڈول میں آب زمزم بھر بھرکر کعبہ شریف کو اندرون وبیرون سے خوب دھونے لگے چنانچہ مشرکین کے تمام نشانات شرک دھو ڈالے اور مٹادئے۔ (ت)
(۱؎ المصنف لابن ا بی شیبہ، کتاب المغازی، حدیث ۱۸۷۶۵ ادارۃ القرآن کراچی ۱۴/ ۴۹۴)
حاصل ان احادیث کا یہ ہے کہ کعبہ میں جو تصویریں تھیں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کوحکم فرمایا کہ انھیں مٹادو۔ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور دیگر صحابہ کرام چادریں اتار اتارکر امتثال حکم اقدس میں سرگرم ہوئے زمزم شریف سے ڈول کے ڈول بھر کر آتے اور کعبہ کو اندر باہر سے دھویا جاتا، کپڑے بھگو بھگو کر تصویریں مٹائی جاتیں، یہاں تک کہ وہ مشرکوں کے آثار سب دھوکر مٹادئے، جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خبر پائی کہ اب کوئی نشان باقی نہ رہا اس وقت اندر رونق افروزہوئے، اتفاق سے بعض تصاویر مثل تصویر ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نشان رہ گیا تھا، پھر نظر فرمائی توحضرت مریم کی تصویر بھی صاف نہ دھلی تھی حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک ڈول پانی منگا کر بنفس نفیس کپڑا تر کرکے ان کے مٹانے میں شرکت فرمائی اور ارشاد فرمایا: اللہ کی ماران تصویر بنانے والوں پر۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے:
فی حدیث اسامۃ انہ صلی اﷲ تعالٰی علہ وسلم دخل الکعبۃ فرأی صورۃ ابراھیم فدعا بماء فجعل یمحوھا وھو محمول علی انہ بقیۃ تخفی علی من محاھا اولا ۲؎
حضرت اسامہ کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کعبہ شریف کے اندر تشریف لے گئے توکچھ تصاویر انمٹی دیکھ کر پانی منگوایا اور انھیں اپنے دست اقدس سے خود مٹانے لگے، یہ حدیث اس پر محمول ہے کہ بعض تصویروں کے کچھ نشانات باقی رہ گئے تھے جنھیں پہلی دفعہ مٹانے والا نہ دیکھ سکا،(تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دوبارہ انھیں مٹادیا) (ت)
(۲؎ فتح الباری، کتاب المغازی باب این رکز النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الرایۃ یوم الفتح مصطفی البابی مصر ۹/ ۷۷، ۷۸)
حدیث ۲۶: صحیحین میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے:
لما اشتکی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ذکر بعض نسائہ کنیسۃ یقال لہا ماریۃ وکانت ام سلمۃ وام حبیبۃ اتتاارض الحبشۃ فذکرتا من حسنہا وتصاویر فیہا فرفع رأسہ فقال اولئک اذا مات فیہم الرجل الصالح بنوا علی قبرہ مسجدا ثم صوروافیہ تلک الصور اولئک شرار خلق اﷲ ۱؎۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مرض میں بعض ازواج مطہرات نے ایک گرجا کا ذکر کیا جس کا نام ماریہ تھا اور حضرت ام المومنین ام سلمہ وام المومنین ام حبیبہ ملک حبشہ میں ہو آئی تھیں ان دونوں بیبیوں نے ماریہ کی خوبصورتی اور اس کی تصویروں کا ذکر کیا، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سر اٹھا کر فرمایا یہ لوگ جب ان میں کوئی نیک بندہ نبی یا ولی انتقال کرتاہے اس کی قبر پر مسجد بناکر اس میں تبرکا اس کی تصویر لگاتے ہیں یہ لوگ بدترین خلق ہیں۔ (ت)
(۱؎ صحیح البخاری، کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰہ فی البیعۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۶۲)
(صحیح البخاری، کتاب الجنائز باب المسجد علی القبر ، قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۷۹)
(صحیح مسلم، کتاب المساجد باب النہی عن بناء المسجد علی القبر قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۰۱)
فی المرقاۃ الرجل الصالح ای من نبی او ولی تلک الصور ای صور الصلحاء تذکیرا بہم وترغیبا فی العبادۃ لاجلہم ۲؎ الخ۔
مرقاۃ (ا زمحدث علی قاری) میں ہے مردصالح یعنی وہ نبی یا ولی فوت ہوجا تا اس کی تصاویر بناتے اور لٹکایا کرتے تھے ان کی یادگار اور ان کی وجہ سے عبادت میں رغبت دلانے کے لئے الخ (ت)
(۲؎ مرقاۃ المفاتیح، کتاب اللباس باب التصاویر الفصل الثالث مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۸/ ۲۸۲)
حدیث ۲۷: امام بخاری کتاب الصلوٰۃ جامع صحیح میں تعلیقا بلاقصہ اور عبدالرزاق وابوبکر بن ابی شیبہ اپنے اپنے مصنف اور بیہقی سنن میں اسلم مولی امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے موصولا مع القصہ راوی جب امیر المومنین ملک شام کو تشریف لے گئے ایک زمیندار نے آکر عرض کی میں نے حضور کے لئے کھانا تیار کرایا ہے میں چاہتاہوں حضور قدم رنجہ فرمائیں کہ ہمچشموں میں میری عزت ہو امیر المومنین نے فرمایا:
انا لاندخل کنائسکم من اجل الصورالتی فیہا ۳؎۔
ہم ان کنیسوں میں نہیں جاتے جن میں یہ تصویریں ہوتی ہیں۔
(۳؎ المصنف لعبد الرزاق، باب التماثیل وماجاء فیہ حدیث ۱۹۴۸۶ المکتب الاسلامی بیروت ۱۰/ ۳۹۷)
(صحیح البخاری، کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰہ فی البیعۃ، قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۶۲)
بالجملہ حکم واضح ہے اور مسئلہ مستبین اور حرکات مذکورہ حرام بالیقین اور ان میں اعتقاد ثواب ضلال مبین اس شخص پرفرض ہے کہ اس حرکت سے باز آئے اور حرام میں ثواب کی امید سے نہ خود گمراہ ہونہ جاہل مسلمانوں کو گمراہ بنائے ان تصویروں کو ناآباد جنگل میں راہ سے دور نظر عوام سے بچا کر اس طرح دفن کردیں کہ جہال کو ان پر اصلا اطلاع نہ ہو یا کسی ایسے دریا میں کہ کبھی پایاب نہ ہوتا ہو نگاہ جاہلان سے خفیہ عمیق کنڈے میں یوں سپرد کریں کہ پانی کی موجوں سے کبھی ظاہر ہونے کا احتمال نہ ہو،
واﷲ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم ۱؎
(اور اللہ تعالٰی جسے چاہتاہے سیدھا راستہ دکھاتاہے۔ ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۱۳)
یہ سب متعلق بتصاویرذی روح تھا۔ رہا نقشہ روضۃ مبارکہ اس کے جواز میں اصلا مجال سخن وجائے دم زدن نہیں، جس طرح ان تصویروں کی حرمت یقینی ہے یوں ہی اس کاجواز اجماعی ہے۔ ہر شرع مطہر میں ذی روح کی تصویر حرام فرمائی ، حدیث پانزدہم میں اس قید کی تصریح کردی، حدیث اول میں ہے کہ ایک مصور نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی خدمت والا میں حاضر ہو کر عرض کی، میں تصویریں بنایا کرتاہوں اس کا فتوٰی دیجئے، فرمایا: پاس آیا، وہ پاس آیا، فرمایا: پا س آ۔ وہ اور پاس آیا یہاں تک کہ حضرت نے اپنا دست مبارک اس کے سر پر رکھ کر فرمایا کیا میں تجھے نہ بتادوں وہ حدیث جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے سنی، پھر حدیث مذکور مصوروں کے جہنمی ہونے کی ارشاد فرمائی، اس نے نہایت ٹھنڈی سانس لی، حضرت نے فرمایا:
ویحک ان ابیت الا ان تصنع فعلیک بہذا الشجر وکل شیئ لیس فیہ روح ۲؎
افسوس تجھ پر اگر بے بنائے نہ بن آئے تو پیڑ اور غیر ذی روح چیزوں کی تصویریں بنایا کر۔
(۲؎ مسند احمد بن حنبل ازمسند عبداللہ بن عباس المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۳۰۸)
(صحیح مسلم، کتاب اللباس باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۰۲)
(صحیح البخاری، کتاب البیوع باب بیع التصاویر، قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۹۶)
ائمہ مذاہب اربعہ وغیرہم نے اس کے جواز کی تصریحیں فرمائیں تمام کتب مذاہب اس سے مملو ومشحون ہیں ہر چند مسئلہ واضح اور حق لائح ہے مگر تسکین اوہام وتثبیت عوام کے لئے ائمہ کرام علماء اعلام کی بعض سندیں اسباب میں پیش کروں کہ کن کن اکابردین واعاظم معتمدین نے مزار مقد س اور اس کے مثل نعل اقدس کے نقشے بنائے اور ان کی تعطیم اور ان سے تبرک کرتے آئے اور اسباب میں کیا کیا کلمات روح افزائے مومنین وجانگزائے منافقین ارشاد فرمائے:
(۱) امام عثیم بن نسطاس تابعی مدنی۔
(۲) امام محدث جلیل القدر ابونعیم صاحب حلیۃ الاولیاء
(۳) امام محدث علامہ ابوالفرج عبدالرحمن ابن الجوزی حنبلی
(۴) امام ابوالیمن ابن عساکر
(۵) امام تاج الدین فاکہانی صاحب فجر منیر۔
(۶) علامہ سید نور الدین علی بن احمد سمہودی مدنی شافعی صاحب کتاب الوفاء و وفاء الوفاء۔
(۷) سیدی عارف باللہ محمد بن سلیمن جزولی صاحب الدلائل۔
(۸) امام محدث فقیہ احمد بن حجر مکی شافعی صاحب جوہر منظم۔
(۹) علامہ حسین بن محمد بن حسن دیار بکری صاحب الخمیس فی احوال النفس نفیس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔
(۱۰) علامہ سیدی محمد بن عبدالباقی زرقانی مالکی شارح مواہب لدنیہ ومنح محمدیہ۔
(۱۱) شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی صاحب جذب القلوب۔
(۱۲) محمد العاشق بن عمر الحافظ الرومی حنفی صاحب خلاصۃ الاخبار ترجمہ خلاصۃ الوفاء وغیرہم ائمہ و علماء
نے مزار اقدس واکرم سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وقبور مقدسہ حضرات صدیق وفاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہما کے نقشے بنائے۔
نوٹ: مندرجہ بالا تمام مواد فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 21 کتاب الحظر سے لیا گیا ہے اور یہ صفحہ نمبر 425 سے شروع ہوتا ہے۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment