مدح مصطفیٰ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم اور حضرت کعب بن زہیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
’’حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشہور قصیدے ’’بانت سعاد’’ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد نبوی میں مدح کی اور جب اپنے اس شعر پر پہنچا :
’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کفر و ظلمت کے علمبرداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیز دھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ وہ انہیں (یعنی کعب بن زہیر) کو (غور سے) سنیں۔‘‘
اسے امام حاکم، بیہقی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جب حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ کے پاس (قبول اسلام سے قبل،گستاخِ رسول) ابن خطل کے قتل کی خبر پہنچی اور اسے یہ خبر بھی پہنچ چکی تھی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بھی وہی دھمکی دی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن خطل کو دی تھی تو کعب سے کہا گیا کہ اگر تو بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو سے باز نہیں آئے گا تو قتل کر دیا جائے گا تو اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے زیادہ نرم دل صحابی کے بارے میں معلومات کیں، تو اسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا گیا، وہ ان کے پاس گیا اور انہیں اپنی (ندامت و توبہ کی) ساری بات بتا دی، پس حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ چپکے سے چلے (تاکہ کوئی صحابی راستے میں ہی اسے پہچان کر قتل نہ کر دے) یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پہنچ گئے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) یہ ایک آدمی ہے جو آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے سو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس آگے بڑھایا تو حضرت کعب بن زہیر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کر لی پھر اپنے چہرے سے نقاب ہٹا لیا اور اپنا وہ قصیدہ پڑھا جس میں ہے :
’’مجھے خبر دی گئی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دھمکی دی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں عفو و درگزر کی (زیادہ) امید کی جاتی ہے۔‘‘
اور اسی قصیدہ میں ہے :
’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کفروظلمت کے علمبرداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیز دھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘
پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (خوش ہو کر) اسے اپنی چادر پہنائی جسے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی اولاد سے مال کے بدلہ میں خرید لیا اور یہی وہ چادر ہے جسے (بعد میں) خلفاء عیدوں (اور اہم تہواروں کے موقع) پر پہنا کرتے تھے۔‘‘
اس حديث کو امام ابن قانع اور امام عسقلانی نے روایت کیا ہے اور امام ابن کثير نے ’’البدایہ’’ میں روایت کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک ان کو اس وقت عطا فرمائی جب انہوں نے اپنے قصیدے کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح فرمائی۔۔۔ اور اسی طرح حافظ ابو الحسن ابن الاثیر نے ’’اسد الغابہ’’ میں بیان کیا ہے کہ یہ وہی چادر ہے جو خلفا کے پاس رہی اور یہ بہت ہی مشہور واقعہ ہے۔‘‘
Comments
Post a Comment