مظلوم کے لیے ظالم کے ظلم کو بیان کرنے کا جواز
پہلے اللہ تعالی نے بہ آواز بلند بری بات کہنے کو ناپسند فرمایا پھر اس حکم سے مظلوم کا استثناء فرمایا اسکی تفسیر میں متعدد اقوال ہیں : -
(١) اللہ تعالی مظلوم کے سوا کسی کے بری بات ظاہر کرنے کو ناپسند کرتا ہے لیکن مظلوم اپنے اوپر کیے ہوئے ظلم کو بیان کرسکتا ہے یہ زجاج کا قول ہے۔ -
(٢) مظلوم ظالم کے خلاف بددعا کرسکتا ہے ‘ یہ حضرت ابن عباس اور قتادہ کا قول ہے۔ -
(٣) اصم نے کہا کہ کسی کے پوشیدہ احوال کی لوگوں کو خبر دینا جائز نہیں ہے ‘ تاکہ لوگ کسی کی غیبت نہ کریں ‘ لیکن مظلوم شخص یہ بتاسکتا ہے کہ فلاں شخص نے اس کے ہاں چوری کی یا غصب کیا۔ -
اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی مستنبط کیا گیا ہے کہ مظلوم شخص ظالم کی غیبت کرسکتا ہے پس پشت اس کے ظلم کو بیان کرسکتا ہے ‘ اس مناسبت سے ہم یہاں پر وہ صورتیں بیان کر رہے ہیں جن میں غیبت کرنا جائز ہے۔ -
غیبت کرنے کی مباح صورتیں : -
جس غرض صحیح اور مقصد شرعی کو بغیر غیبت کے پورا نہ کیا جاسکے اس غرض کو پورا کرنے کے لیے غیبت کرنا مباح ہے اور اس کے چھ اسباب ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ مظلوم اپنی داد رسی کے لیے سلطان ‘ قاضی یا اس کے قائم مقام شخص کے سامنے ظالم کا ظلم بیان کرے کہ فلاں شخص نے مجھ پر یہ ظلم کیا ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ کسی برائی کو ختم کرنے اور بدکار کو نیکی کی طرف راجع کرنے کے لیے کسی صاحب اقتدار کے سامنے اس کی غیبت کی جائے کہ فلاں شخص یہ برا کام کرتا ہے اس کو اس برائی سے روکو ! اور اس سے مقصود صرف برائی کا ازالہ ہو اگر یہ مقصد نہ ہو تو غیبت حرام ہے۔ تیسرا سبب ہے استفسار۔ کوئی شخص مفتی سے پوچھے فلاں شخص نے میرے ساتھ یہ ظلم یا یہ برائی کی ہے کیا یہ جائز ہے ؟ میں اس ظلم سے کیسے نجات پاؤں ؟ یا اپنا حق کس طرح حاصل کروں ‘ اس میں بھی افضل یہ ہے کہ اس شخص کی تعیین کیے بغیر سوال کرے کہ ایسے شخص کا کیا شرعی حکم ہے ؟ تاہم تعیین بھی جائز ہے۔ چوتھاسبب یہ ہے کہ مسلمانوں کی خیر خواہی کرنا اور ان کو کسی شخص کے ضرر سے بچانا اور اس کی متعدد صورتیں ہیں۔ -
(ا) مجروح راویوں پر جرح کرنا اور فاسق گواہوں کے عیوب نکالنا یہ اجماع مسلمین سے جائز ہے بلکہ ضرورت کی وجہ سے واجب ہے۔ -
(ب) کوئی شخص کسی جگہ شادی کرنے کے لیے مشورہ کرے ‘ یا کسی شخص سے شراکت کے لیے مشورہ کرے یا کسی شخص کے پاس امانت رکھنے کے لیے مشورہ کرے یا کسی شخص کے پڑوس میں رہنے کے لیے مشورہ کرے یا کسی شخص سے کسی بھی قسم کا معاملہ کرنے کے لیے مشورہ کرے اور اس شخص میں کوئی عیب ہو تو مشورہ دینے والے پر واجب ہے کہ وہ اس عیب کو ظاہر کردے۔ -
(ج) جب انسان یہ دیکھے کہ ایک طالب علم کسی بدعتی یا فاسق سے علم حاصل کر رہا ہے اور اس سے علم حاصل کرنے میں اس کے ضرر کا اندیشہ ہے تو وہ اس کی خیرخواہی کے لیے اس بدعتی یا فاسق کی بدعت اور فسق پر اسے متنبہ کرے۔ -
(د) کسی ایسے شخص کو علاقہ کا حاکم بنایا ہوا ہو جو اس منصب کا اہل نہ ہو ‘ اس کو صحیح طریقہ پر انجام نہ دے سکتا ہو یا غافل ہو یا اور کوئی عیب ہو تو ضروری ہے کہ حاکم اعلی کے سامنے اس کے عیوب بیان کیے جائیں تاکہ اہل اور کارآمد شخص کو حاکم بنایا جاسکے۔ پانچواں سبب یہ ہے کہ کوئی شخص علی الاعلان فسق وفجور اور بدعات کا ارتکاب کرتا ہو ‘ مثلا شراب نوشی ‘ جوا کھیلنا ‘ لوگوں کیا موال لوٹنا وغیرہ تو ایسے شخص کے ان عیوب کو پس پشت بیان کرنا جائز ہے جن کو وہ علی الاعلان کرتا ہو ‘ اس کے علاوہ اس کے دوسرے عیوب کو بیان کرنا جائز نہیں ہے اور چھٹا سبب یہ ہے تعریف اور تعیین مثلا کوئی شخص اعرج (لنگڑے) اصم (بہرے) اعمی (اندھے) ‘ احول (بھینگے) کے لقب سے مشہور ہو تو اس کی تعریف اور تعیین کے لیے اس کا ذکر ان اوصاف کے ساتھ کرنا جائز ہے اور اس کی تنقیص کے ارادے سے ان اوصاف کے ساتھ اس کا ذکر جائز نہیں ہے اور اگ اس کی تعریف اور تعیین کسی اور طریقہ سے ہو سکے تو وہ بہتر ہے۔
Comments
Post a Comment