کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے مصافحہ و دیگر حفاظتی تدابیر۔۔۔۔

ایک حدیث کے اندر ہے سرکار دوعالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس بنو ثقیف کا ایک وفد آیا اور ان میں ایک آدمی تھا جس کو کوڑھ کی بیماری تھی جذام عربی میں جذام کہتے ہیں اور اردو میں کوڑھ کہتے ہیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس وفد کے سب لوگوں کو اپنے پاس بلا کر ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر بیعت لی اسلام پر، مگر جو کوڑھ کا مریض تھا نبی پاک صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے لئے کہ بھئی تم باہر ہی رہو تم باہر رہتے ہوئے ہم تمہاری بیعت قبول کر لیتے ہیں تم آگے نہ آؤ ایک یہ حدیث ہے۔۔۔۔۔۔
( صحيح مسلم السلام (2231) ، سنن النسائي البيعة (4182) ، سنن ابن ماجه الطب (3544) ، مسند أحمد بن حنبل (4/390).

اسی طرح یہاں ثابت ہوتا ہے کہ کوڑھ کا جو مریض تھا نبی پاک صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے احتیاط فرمائی ہے اور اس کے قریب ہونے سے یا اس کو قریب کرنے سے گریز فرمایا ہے۔۔۔۔
ایک حدیث پاک کے اندر میں نے پڑھا تھا نبی پاک صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
 کلم المجذوم وبینك وبینہ قدرَ رمح اور رمحیان
 (فتاویٰ رضویہ 21/107، کنزالعمال بحوالہ ابن السنی وابی نعیم فی الطب حدیث 28325 مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 54/10، التیسیر بشرح الجامع الصغیر 2/220)
تیرے درمیان اور جو کوڑھ کا مریض ہے اس کے درمیان دو نیزوں کا فاصلہ ہو۔۔۔
اب نیزے چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور بڑے بھی ہوتے ہیں، چھوٹا نیزہ ڈیڑھ فٹ کا ہوتا ہے اور درمیانہ نیزہ دو یا ڈھائی فٹ کا ہوتا ہے اور بڑے نیزے اس سے بھی بڑے ہوتے ہیں تو ہم درمیانے نیزے کا حساب لگائیں تو تقریباً پانچ فٹ بنتا ہے، تو سرکار دوعالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے گویا یہ فرمایا کہ مجذوم جو ہے جذام کی بیماری والا اس سے پانچ فٹ کے فاصلے پر رہ کر ان سے بات کرو، ایک یہ حدیث پاک ہے۔۔۔
اور ایک یہ بھی حدیث پاک ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک مجلس کے اندر تشریف فرما تھے کھانا کھایا جا رہا تھا تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک کوڑھ کا مریض ہے اس کو کسی نے اپنے ساتھ کھانے میں شریک نہیں کیا تو نبی پاک صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو بلایا کہ آؤ بھئی تم میرے ساتھ شامل ہو جاؤ میرے ساتھ مل کر کھاؤ تو سرکار دوعالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا۔۔۔۔۔ ایک یہ بھی حدیث پاک ہے۔
اسی طرح ایک حدیث یہ بھی ہے کہ لا عدوٰی ولا طیرۃ (متفق علیہ) سرکار دوعالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تعدیہ یعنی بیماری کا پھیلنا ایک سے دوسرے کو لگنا یہ کوئی چیز نہیں ہے بیماری جو ہے وہ خود بخود دوسرے کو جا کر نہیں لگتی۔۔۔ بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کے امر سے لگتی ہے۔۔۔۔۔ اس میں یہ فرمایا۔۔۔
اس کے علاوہ اور حدیثیں بھی ہیں جہاں نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو خارش والا اونٹ ہے اس کو تندرست اونٹوں سے علیحدہ رکھو، ان کے اندر اس کو جانے نہ دو کیونکہ اگر وہ ان کے اندر جائے گا تو دوسروں کو بھی خارش لگ جائے گی یہ ساری حدیثیں آپ کے سامنے آ گئیں۔۔۔۔
اور ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے،
فر من المجذوم كما تفر من الأسد،
(مسند أحمد بن حنبل (2/443).
کہ جو کوڑھ کی بیماری والا ہے اس سے ایسے دور بھاگو جیسے شیر سے تم دور بھاگتے ہو۔۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ تمہیں بھی بیماری لگ جائے گی اس کے قریب ہونے سے۔۔۔
تو اصل یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ بیماری ہو یا تندرستی۔۔۔۔۔۔ بیماری چاہے عام ہو یا وبائی بیماری وہ اللّٰہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت کے بغیر لگ نہیں سکتی چنانچہ نبی پاک صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے ایک دفعہ تعدیہ کا ذکر کیا گیا یعنی وبا کا تو اونٹوں کا معاملہ تھا اونٹ کوئی بیمار تھا اور کچھ اونٹ تندرست تھے تو جو بیمار تھا اس کو تندرست اونٹوں سے علیحدہ رکھا تھا تاکہ تندرست اونٹ بیمار اونٹوں سے بچے رہیں تو اس شخص نے پوچھا کہ مجھے ان بیمار اونٹوں کو علیحدہ رکھنا چاہیے یا نہیں رکھنا چاہیے تو سرکار دوعالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے تم کیوں علیحدہ رکھنا چاہتے ہو۔۔؟ تو اس نے کہا اس لیے علیحدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ جو تندرست ہیں ان کو یہ بیماری نہ لگ جائے۔۔۔ تو آپ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اچھا یہ بتاؤ کہ ان سب اونٹوں میں سے سب سے پہلے جو اونٹ جس کو یہ بیماری لگی تھی اس کو کون سے اونٹ سے بیماری لگی تھی یہ بتاؤ اس کو کون سے اونٹ سے چل کے یہ بیماری لگی تھی۔۔۔۔۔۔ تو مطلب سیدھا سیدھا ہے کہ اللّٰہ پاک نے اس کو بیمار کیا ہے۔۔۔۔
اب ان ساری احادیث کو سامنے رکھنے کے بعد اس کا نتیجہ آپ یہ سمجھیں کہ نبی پاک صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اصحاب توکل جو ہیں جو اللّٰہ پاک پر اتنا زیادہ مضبوط توکل ہے ان کا کہ جو یہ واقعتاً اپنے دل سے اور اپنے دماغ سے ہی نہیں بلکہ اپنے دل سے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ طبعی طور پر ان کے اندر یہ بات آ گئی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر اور اس کے ارادے کے بغیر، مشیت کے بغیر کوئی چیز نہیں ہو سکتی اس طرح کے جو اعلیٰ درجے کے اصحاب توکل ہیں ان کے لئے تو یہ ہے کہ وہ اگر چاہیں تو بے شک پرہیز نہ کریں، لیکن جو عامۃ الناس ہیں جن میں آج کل کے (کچھ) علماء بھی شامل ہیں پیر بھی شامل ہیں تو ان لوگوں کے لیے اجازت ہے کہ نبی پاک صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو رخصت دی ہے کہ ہاں احتیاط کر لیں۔۔۔۔۔۔
(تو خلاصہ کلام یہ ہے کہ) گویا احتیاط کرنا بھی سنت ہوا اور احتیاط نہ کرنا جو ہے یہ اصحاب توکل والے وہ اعلیٰ درجے کے لوگ جو اپنے رب پر ہر چیز میں بھروسہ کرتے ہیں اسی پر ان کی ہر وقت نظر ہوتی ہے تو ان لوگوں کو اجازت بھی دے دی ہے کہ وہ احتیاط نہ بھی کریں۔۔
تو شرعی لحاظ سے مسئلہ یہ ہے


Comments

Popular posts from this blog

حضرت ﻋﻼﻣﮧ ﺧﺎﺩﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ صاحب ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺣﯿﺮﺍﻥ

:::::::::آپ کون سی خاتون پسند کرتے ہیں:::::::::::