نظر تیری بُری، اور پردہ کروں مَیں؟ ایک نظریہ یا لمحہ فکریہ

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ :
* یہ کتاب ہم نے آپ ﷺکی طرف اتاری ہے کہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ ﷺ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکرکریں۔ (سورۂ النحل ۴۴)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا * تمہیں جو کچھ رسولﷺ دیں لے لو، اور جس سے روکیں رک جاؤ ۔ (سورۂ الحشر ۷)
اسلام میں مردوں اور عورتوں کے لئے معاشرتی زندگی گزرنے کے واضح احکامات موجود ہیں چنانچہ سوره نور میں فرمان ہے کہ
‘ مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں’ (٣٠ : ٢٤ ) 
لیکن مسلمان عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کے ساتھ ساتھ پردہ کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے ارشاد فرمایا ‘مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمتوں میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سواے اسکے کہ جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں’ (٣١ : ٢٤ )
لہٰذا اگر مرد کی نظر بری ہے تو عورت کو ہرگز یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ بےپردگی اپنا لے کیونکہ دونوں کے لئے الگ سے الله سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات موجود ہیں.

اس معاشرے کی سب سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ کچھ عورتیں اور انکی اولادیں پردے سے مادر پدر آزاد ہیں اور جو دل میں آے کر رہی ہیں لیکن کچھ بلند کردار خواتین نے اسلامی شریعت کے عین مطابق بہترین پردہ کرتے ہوئے اپنی ساری عمر گزار دی وہ نیک خواتین بھی موجودہ دَور میں اپنی جوان بیٹیوں سے شرعی پردہ نہ کروا سکیں، بلکہ بہت سی تو بخوشی اپنی اولاد کی بےپردہ نوعیت پر رضامند بھی ہیں۔ ہماری جوان بیٹیاں کردار پاک ہونے کے باوجود بھی محض دکھاوے کا پردہ ہی کرتی ہیں۔ وہ نمازِ پنجگانہ پڑھتی ہیں مگر لباس ایسا پہنتی ہیں کہ شریعت کے تقاضوں پر بالکل پورا نہیں اُترتا اور والدین کو نہ چاہتے ہوئے بھی یہی ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ ہم ان کے ایسے لباس پر راضی اور خوش ہیں۔ 

لباس پہنے کا اصل مقصد ستر عورت ہے اور عورتوں کو مکمل بدن ڈھاپنے کا پابند کیا گیا ہے عریانی اور ننگے پن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اور احادیث میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔ بہت باریک کپڑا یا دوپٹہ جیسے ململ جالی وغیرہ یا وہ کپڑا جس میں سے جسم جھلکتا ہو پہننا جائز نہیں کیونکہ اس طرح پہننا اور نہ پہننا دونوں برابر ہیں اسی لئے عورتوں کو حکم دیا گیا کہ باہر نکلتے وقت بڑی چادر اوڑھ لیں تاکہ ان کے جسم کا کوئی حصہ کھلا نظر آئے لہذا ایسا لباس پہننا جو جسم کے پوشیدہ اعضاء کی نمائش کا باعث بنے قلت حیاء کی علامت ہے ۔ کوئی کامل مسلمان عورت قطعا اس کو پسند نہیں کرتی کہ اپنے جسم کے اعضاء کی نمائش کراتی پھرے ۔ 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایسی حالت میں حاضر ہوئی کہ ان کے بدن پر باریک کپڑے تھے آنحضرت ﷺ نے یہ دیکھ کر ان سے منہ پھیر لیا اور فرمایا ۔ اسماء عورت جب حیض کو پہنچ جائے ( یعنی جب وہ بالغ ہوجائے ) تو ہرگز درست نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ دیکھا جائے سوائے اس کے ۔ (راوی فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے سوائے اس کے فرما کر اپنے چہرہ اور ہاتھوں کی طرف اشارہ فرمایا ) (ابو داؤد )

جب رسول اللہ ﷺ کے اس بارے میں واضح احکامات سبھی کے سامنے ظاہر ہیں کہ جو عورت شرعی پردہ نہیں کرتی اللہ اُس کی کوئی عبادت قبول نہیں کرتا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ عورت کے جسم کا جو حصہ بھی نامحرم کی آنکھوں تک پہنچا (یعنی نامحرم نے عورت کی بےپردگی کی وجہ سے دیکھا) وہ حصہ جہنم کی تپتی ہوئی آگ میں جلے گا۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اُس عورت کی کوئی دعا قبول نہیں کرتا جو بالغ ہونے کے باوجود بھی پردہ نہیں کرتی۔ (بخاری، متفق علیہ)

اس معاملے میں تنگ یا کسے ہوئے، جالی دار یا جسم کے خدوخال ظاہر کرنے والی کپڑے پہننے والی خواتین کے پاس جوابی دلائل یہیں تک محدود ہیں کہ ہمیں زمانے کے ساتھ چلنا ہے یا وہ مرد کی نظروں کو نشانہ بنا کر اپنی بےپردگی کے معاملے کو سلجھانا شروع کر دیں گی۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ مرد نہ دیکھیں تو عورت کو نیم عریاں لباس پہننے کا حق حاصل ہو گیا۔ اسلام نے عورت سے اُسکی زندگی کا حساب لینا ہے اور مرد سے اُس کی زندگی کا، لہٰذا مردوں کی نظریں گندی ہوں یا پاک ہوں عورت کو پردہ اسلامی شریعت کے مطابق ہی کرنا چاہیے یہی اُس کی پاکدامنی، ایمان اور شریعتِ اسلامی کا تقاضا ہے۔

جن خواتین پر میرے پیارے نبی محمد ﷺ کے احکاماتِ عالی شان واضح ہو جائیں اُن کے لباس میں آئندہ سے کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور آئے گی، باقی جنہیں اس تحریر میں موجود فرمانِ اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے عکس کئے گئے شرعی احکامات پر بھی اعتراض ہے اُنہیں بحث کرنے کی کھلی اجازت ہے مگر عورت کے پردے سے متعلق نظامِ رسول اللہ ﷺ بہترین ہے، اس میں کوئی ش


Comments

Popular posts from this blog

حضرت ﻋﻼﻣﮧ ﺧﺎﺩﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ صاحب ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺣﯿﺮﺍﻥ

برلن (جرمنی) کی مسجد میں پہلی دفعہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دی گئی۔