حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا لوگوں کو اھلِ بیت کی محبت پر اُبھارنے کا بیان

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَحِبُّوْا اﷲَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِهِ، وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اﷲِ عزوجل. وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے محبت کرو اﷲ کی محبت کے سبب اور میرے اہل بیت سے میری محبت کی خاطر محبت کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

 أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب أهل البيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 664، الرقم : 3789، والحاکم في المستدرک 3 / 162، الرقم : 4716، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 366، الرقم : 408.

 عَنِ الْعَبَاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : کُنَّا نَلْقَي النَّفَرَ مِنْ قُرَيْشٍ، وَهُمْ يَتَحَدَّثُوْنَ فَيَقْطَعُوْنَ حَدِيْثَهُمْ، فَذَکَرْنَا ذَلِکَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَحَدَّثُوْنَ فَإِذَا رَأَوْا الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي قَطَعُوْا حَدِيْثَهُمْ وَاﷲِ، لاَ يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّي يُحِبَّهُمْ لِلّهِ وَلِقَرَابَتِهِمْ مِنِّي. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَالْحَاکِمُ.

’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کررہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کو دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں؟ اﷲ رب العزت کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس قت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک ان سے اﷲ تعالیٰ کے لیے اور میرے قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

 أخرجه ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : فضل العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، 1 / 50، الرقم : 140، والحاکم في المستدرک، 4 / 85، الرقم : 6960، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 382، الرقم : 472، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 113، الرقم : 6350، والسيوطي في شرح سنن ابن ماجة، 1 / 13، الرقم : 140.

عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنه قَالَ : قُلْتُ : يَارَسُولَ اﷲِ، إِنَّ قُرَيْشًا إِذَا لَقِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا لَقُوهُمْ بِبَشْرٍ حَسَنٍ، وَإِذَا لَقُوْنَا لَقُوْنَا بِوُجُوهٍ لاَ نَعْرِفُهَا. قَالَ : فَغَضِبَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم غَضَبًا شَدِيْداً، وَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّي يُحِبَّکُمْ لِلّهِ وَلِرَسُوْلِهِ وَ لِقَرَابَتِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ.

و في رواية : قَالَ : وَاﷲِ، لَا يَدْخُلُ قَلْبَ امْرِيءٍ إِيْمَانٌ حَتَّي يُحِبَّکُمْ لِلّهِ وَلِقَرَابَتِي.

’’حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ایسے چہروں سے ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے (یعنی جذبات سے عاری چہروں کے ساتھ) حضرت عباس فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔‘‘ اسے امام احمد، نسائی، حاکم اور بزار نے روایت کیا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : خدا کی قسم کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہ ہوگا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرے۔‘‘

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 207، الرقم : 1772، 1777، 17656، 17657، 17658، والحاکم في المستدرک، 3 / 376، الرقم : 5433، 2960، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 51 الرقم : 8176، والبزار في المسند، 6 / 131، الرقم : 2175، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 188، الرقم : 1501، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 361، الرقم : 7037.

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ عَلَي هَذَا الْمِنْبَرِ : مَا بَالُ رِجَالٍ يَقُوْلُوْنَ : إِنَّ رَحِمَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لاَ تَنْفَعُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَلَي وَاﷲِ، إِنَّ رَحِمِي مَوْصُوْلَةٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. وَأَنِّي أَيُّهَا النَّاسُ، فَرَطٌ لَکُمْ عَلَي الْحَوْضِ فَإِذَا جِئْتُمْ قَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَنَا فُلَانٌ بْنُ فَلَانٍ وَقَالَ : يَتَحَقَّقُ أَنَا فُلَانٌ بْنُ فُلَانٍ وَ قَالَ لَهُمْ : أَمَّا النَّسَبُ فَقَدْ عَرَّفْتُهُ وَ لَکِنَّکُمْ أَحْدَثْتُمْ بَعْدِي وَ أَرْتَدَدْتُمْ الْقَهْقَرِيَّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الْحَاکِمُ.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ان لوگوں کا کیا ہو گا جو یہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق قیامت کے روز ان کی قوم کو کوئی فائدہ نہیں دے گا کیوں نہیں! اﷲ کی قسم بے شک میرا نسبی تعلق دنیا و آخرت میں آپس میں باہم ملا ہوا ہے اور اے لوگو! بے شک (قیامت کے روز) میں تم سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا پس جب تم آ گئے تو ایک آدمی کہے گا یا رسول اﷲ! میں فلاں بن فلاں ہوں پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کا فلاں بن فلاں کہنا پایۂ ثبوت کو پہنچے گا اور رہا نسب تو تحقیق اس کی پہچان میں نے تمہیں کرا دی ہے لیکن تم میرے بعد تم احداث کرو گے اور الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 18، الرقم : 11154، و الحاکم في المستدرک، 4 / 84، الرقم : 6958، و أبو يعلي في المسند، 2 / 433، الرقم : 1238، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 364.

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : خَيْرُکُمْ، خَيْرُکُمْ لِأَهْلِي مِنْ بَعْدِي. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ أَبُوْ يَعْلَي.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے بہترین وہ ہے جو میرے بعد میری اہل کے لئے بہترین ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور امام ابویعلی نے بیان کیا ہے۔

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 352، الرقم : 5359، وأبو يعلي في المسند، 10 / 330، الرقم : 5924، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 616، الرقم : 1414، و الديلمي في مسند الفردوس، 2 / 170، الرقم : 2851، و الخطيب في تاريخ بغداد، 7 / 276، الرقم : 3765، و المناوي في فيض القدير، 3 / 497، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 174.

عَنْ عَبْدِ الرحمٰن بْنِ أَبِي لَيْلَي عَنْ أَبيْهِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّي أَکُوْنَ أَحَبَّّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ وَأَهْلِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَعِتْرَتِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ عِتْرَتِهِ. وَذَاتِي أَحَبََّ إِلَيْهِ مِنْ ذَاتِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

’’حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں اور میرے اھلِ بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔‘‘ اسے امام طبرانی اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

 أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 7 / 75، الرقم : 6416، و في المعجم الأوسط، 6 / 59، الرقم : 5790، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 189، الرقم : 1505، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 154، الرقم : 7795، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 88.

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : الْزِمُوْا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّهُ مَنْ لَقِيَ اﷲَ عزوجل وَ ُهوَ يَوَدُّنَا دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِنَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ : لاَ يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُهُ إِلاَّ بِمَعْرِفَةِ حَقِّنَا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

’’حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو پس بے شک وہ شخص جو اس حال میں اﷲ سے ملا کہ وہ ہمیں محبت کرتا تھا تو وہ ہماری شفاعت کے صدقے جنت میں داخل ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی شخص کو اس کا عمل فائدہ نہیں دے گا مگر ہمارے حق کی معرفت کے سبب۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 360، الرقم : 2230، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172.

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : کَانَ لِآلِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم خَادِمٌ تَخْدُمُهُمْ يُقَالَ لَهَا : بَرِيْرَةُ، فَلَقِيَهَا رَجُلٌ فَقَالَ : يَابَرَيْرَةُ، غَطِّي شُعَيْفَاتِکِ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا لَنْ يُغْنِيَ عَنْکِ مِنَ اﷲِ شَيْئاً قَالَ : فَأَخْبَرَتِ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم : فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ مُحُمَّرَةً وَجْنَتَاهُ، وَکُنَّا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ نَعْرِفُ غَضَبَهَ بِجَرِّ رِدَاءِهِ وَ حُمْرَةِ وَجَنَتَيْهِ. فَأَخَذْنَا السِّلاَحَ، ثُمَّ أَتَيْنَاهُ فَقُلْنَا : يَارَسُوْلَ اﷲِ، مُرْنَا بِمَا شِئْتَ، فَوَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَوْ أَمَرْتَنَا بِأُمَّهَاتِنَا وَآبَاءِنَا وَأَوْلاَدِنَا، لَأَمْضَيْنَا قَوْلَکَ فِيْهِمْ، فَصَعِدَ صلي الله عليه وآله وسلم الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اﷲَ عزوجل وَأَثْنَي عَلَيْهِ. وَ قَالَ : مَنْ أَنَا؟، فَقُلْنَا : أَنْتَ رَسُوْلُ اﷲِ. قَالَ : نَعَمْ، وَلَکِنْ مَنْ أَنَا؟ فَقُلْنَا : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ بْنِ هَاشِمٍ بْنِ عَبْدِ مُنَافٍ. قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ وَلاَ فَخْرَ، وَأَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلاَ فَخْرَ، وَأَوَّلُ مَنْ يُنْفَضُ التُّرَابُ عَنْ رَأْسِهِ وَلاَ فَخْرَ، وَأَوَّلُ دَاخِلِ الْجَنَّةِ وَلاَ فَخْرَ، مَا باَلُ أَقْوَامٍ يَزْعَمُوْنَ أَنَّ رَحِمِي لاَ تَنْفَعُ. لَيْسَ کَمَا زَعَمُوْا، إِنِّي لَأَشْفَعُ وَأُشَفَّعُ، حَتَّي أَنَّ مَنْ أَشْفَعُ لَهُ لَيَشْفَعُ فَيُشَفَّعُ، حَتَّي إِنَّ إِبْلِيْسَ لَيَتَطَاوَلُ طَمْعًا فِي الشَّفَاعَةِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک خادمہ تھی جو ان کی خدمت بجا لاتی اسے ’’بریرہ‘‘ کہا جاتا تھا پس اسے ایک آدمی ملا اور کہا : اے بریرہ اپنی چوٹی کو ڈھانپ کر رکھا کرو بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں اﷲ کی طرف سے کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ راوی بیان کرتے ہیں پس اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس واقع کی خبر دی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے درآنحالیکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں رخسار مبارک سرخ تھے اور ہم (انصار کا گروہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصے کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چادر کے گھسیٹنے اور رخساروں کے سرخ ہونے سے پہچان لیتے تھے پس ہم نے اسلحہ اٹھایا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ گئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ جو چاہتے ہیں ہمیں حکم دیں پس اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر آپ ہمیں ہماری ماؤں، آباء اور اولاد کے بارے میں بھی کوئی حکم فرمائیں گے تو ہم ان میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کو نافذ کر دیں گے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا : میں کون ہوں؟ ہم نے عرض کیا : آپ اﷲ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں لیکن میں کون ہوں؟ ہم نے عرض کیا : آپ محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کا سردار ہوں لیکن کوئی فخر نہیں، میں وہ پہلا شخص ہوں جس سے قبر پھٹے گی لیکن کوئی فخر نہیں اور میں وہ پہلا شخص ہوں جس کے سر سے مٹی جھاڑی جائے گی لیکن کوئی فخر نہیں اور میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والا ہوں لیکن کوئی فخر نہیں ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں کہ میرا رحم (نسب و تعلق) فائدہ نہیں دے گا ایسا نہیں ہے جیسا وہ گمان کرتے ہیں۔ بے شک میں شفاعت کروں گا اور میری شفاعت قبول بھی ہو گی یہاں تک کہ جس کی میں شفاعت کروں گا وہ یقیناً دوسروں کی شفاعت کرے گا اور اس کی بھی شفاعت قبول ہو گی یہاں تک کہ ابلیس بھی اپنی گردن کو بلند کرے گا شفاعت میں طمع کی خاطر (یا کسی طور اس کی شفاعت بھی کوئی کر دے)۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 203، الرقم : 5082، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 376.

عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنهما : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : الْزِمُوْا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّهُ مَنْ لَقِيَ اﷲَ عزوجل وَهُوَ يَوَدُّنَا، دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِنَا. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُهُ إلَّا بِمَعْرِفَةِ حَقِّنَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

’’حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو پس وہ شخص جو اس حال میں اﷲ سے (وصال کے بعد) ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہو تو وہ ہماری شفاعت کے وسیلہ سے جنت میں داخل ہو گا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں مجھ محمد کی جان ہے کسی بھی شخص کو اس کا عمل ہمارے حق کی معرفت حاصل کئے بغیر فائدہ نہیں دے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 360، الرقم : 2230، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172.

عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضي اﷲ عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ لِعَلِيٍّ رضي اﷲ عنه : أَنْتَ وَشِيْعَتُکَ تَرِدُوْنَ عَلَيَّ الْحَوْضَ رُوَاءَ مُرَوَّييْنَ، مُبَيَّضَةً وُجُوْهُکُمْ. وَإِنَّ عَدُوَّکَ يَرِدُوْنَ عَلَيَّ ظُمَاءً مُقَبَّحِيْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے علی! تو اور تیرے (چاہنے والے) مددگار (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر چہرے کی شادابی اور سیراب ہو کر آئیں گے اور ان کے چہرے (نور کی وجہ سے) سفید ہوں گے اور بے شک تیرے دشمن (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر بدنما چہروں کے ساتھ اور سخت پیاس کی حالت میں آئیں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الطبراني فيالمعجم الکبير، 1 / 319، الرقم : 948، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131.

 عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّمَا سَمَّيْتُ بِنْتِي فَاطِمَةَ لِأَنَّ اﷲَ عزوجل فَطَمَهَا وَ فَطَمَ مُحِبِّيْهَا عَنِ النَّارِ.

رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھا ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اسے اور اس کے چاہنے والوں کو آگ سے چھڑا (اور بچا) لیا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 346، الرقم : 1385، و الخطيب في تاريخ بغداد، 12 / 331، و المناوي في فيض القدير، 3 / 432.

. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضي اﷲ عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ يَوْماً، خَيْرٌ مِنْ عِبَادَةِ سَنَة وَ مَنْ مَاتَ عَلَيْهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اہل بیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک دن کی محبت پورے سال کی عبادت سے بہتر ہے اور جو اسی محبت پر فوت ہوا تو وہ جنت میں داخل ہو گیا۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الديلمي فی مسند الفردوس، 2 / 142، الرقم : 2721.

 عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي اﷲ عنه مَرْفُوْعا. خَمْسٌ مَنْ أوْتِيَهُنَّ لَمْ يُقْدَرْ عَلَي تَرْکِ عَمَلِ الْآخِرَةِ زَوْجَةٌ صَالِحَةٌ وَ بَنُوْنَ أَبْرَارٌ وَ حَسَنُ مُخَالَطَةِ النَّاسِ وَ مَعِيْشَةٌ فِي بَلَدِهِ وَ حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

’’حضرت زید بن ارقم سے مرفوعاً روایت ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر کسی کو نصیب ہو جائیں تو وہ آخرت کے عمل کا تارک نہیں ہو سکتا (اور وہ پانچ چیزیں یہ ہیں) : نیک بیوی، نیک اولاد، لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت اور اپنے ملک میں روزگار اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 2 / 196، الرقم : 2974.

. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما رَفَعَهُ : أَنَا شَجَرَةٌ، وَ فَاطِمَةُ حَمْلُهَا، وَ عَلِيٌ لِقَاحُهَا وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ثَمَرُهَا، وَ الْمُحِبُّوْنَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَرَقُهَا، هُمْ فِي الْجَنَّةِ حَقًا حَقًا. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں درخت ہوں اور فاطمہ اس کے پھل کی ابتدائی حالت ہے اور علی اس کے پھول کو منتقل کرنے والا ہے اور حسن اور حسین اس درخت کا پھل ہیں اور اہل بیت سے محبت کرنے والے اس درخت کے اوراق ہیں وہ یقیناً یقیناً جنت میں (داخل ہونے والے) ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

 أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 52، الرقم : 135.

 عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي اﷲ عنه رَفَعَهُ : أَرْبَعَةٌ أَنَا لَهُمْ شَفِيْعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : الْمُکْرِمُ ذُرِّيَّتِي، وَالْقَاضِي لَهُمْ حَوَائِجَهُمْ، وَ السَّاعِي لَهُمْ فِي أُمُوْرِهِمْ عِنْدَ مَا اضْطَرُّوْا إِلَيْهِ، وَ الْمُحِبُّ لَهُمْ بِقَلْبِهِ وَ لِسَانِهِ.

رَوَاهُ الْمُتَّقِيُّ الْهِنْدِيُّ.

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چار شخص ایسے ہیں قیامت کے روز جن کے لئے میں شفاعت کرنے والا ہوں گا (اور وہ یہ ہیں : ) میری اولاد کی عزت و تکریم کرنے والا، اور ان کی حاجات کو پورا کرنے والا، اور ان کے معاملات کے لئے تگ و دو کرنے والا جب وہ مجبور ہو کر اس کے پاس آئیں اور دل و جان سے ان کی محبت کرنے والا۔‘‘ اس حدیث کو امام متقی ہندی نے روایت کیا ہے۔

 أخرجه الهندي في کنز العمال، 12 / 100، الرقم : 34180.


Comments

Popular posts from this blog

حضرت ﻋﻼﻣﮧ ﺧﺎﺩﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ صاحب ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺣﯿﺮﺍﻥ

برلن (جرمنی) کی مسجد میں پہلی دفعہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دی گئی۔